1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان سربراہ کے بیٹے کا خودکش حملہ

William Yang/ بینش جاوید ڈی پی اے
22 جولائی 2017

طالبان کے رہنما ہیبت اللہ آخوندزادہ کے بیٹے نے افغانستان کے جنوبی صوبہ ہیلمند میں ایک خودکش حملہ کیا ہے۔ اس بات کی تصدیق طالبان کے ایک ترجمان نے آج ہفتے کے روز کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/2h0tk
Afghanistan Anschlag in Lashkar Gah
تصویر: Getty Images/AFP/N. Mohammad

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’جمعرات کی صبح عبدالرحمان خالد نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی صوبہ ہلمند کے ضلع گریشک میں موجود افغان سکیورٹی فورسز کے ایک بڑے فوجی اڈے پر دھماکے سے اُڑا دی۔‘‘

طالبان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی نے مولوی ہیبت اللہ آخوندزادہ کے بیٹے کی ایک تصویر ٹوئیٹ کی ہے اور ساتھ لکھا ہے، ’’گریشک کی لڑائی میں امیر المومنین آخوندزادہ کے بیٹے خالد کی شہادت اور قربانی نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ ایمان کی جنگ ہے نہ کہ طاقت اور پیسے کی۔‘‘

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق خالد مولوی ہیبت اللہ آخوندزادہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور وہ طالبان کے خودکش اسکواڈ میں شامل تھا اور گزشتہ تین برس سے اپنی باری کے انتظار میں تھا۔ مجاہد نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’گریشک میں ہونے والے تین کار بم دھماکوں میں افغان فورسز کے 100 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے۔‘‘ تاہم جب پوچھا گیا کہ خالد کے خودکش حملے میں کتنے افراد ہلاک ہوئے تو مجاہد کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔

افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند کا 80 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اس پورے صوبے پر قبضہ کر لیں۔ ڈی پی اے کے مطابق طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ آخوندزادہ کے بیٹے کی طرف سے اس خودکش حملے کے سبب لڑائی میں شدت متوقع ہے۔

Afghanistan Talibanführer Mullah Haibatullah
’’طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ آخوندزادہ کا سب سے چھوٹا بیٹا خالد طالبان کے خودکش اسکواڈ میں شامل تھا اور گزشتہ تین برس سے اپنی باری کے انتظار میں تھا‘‘تصویر: Imago/Xinhua

قبل ازیں صوبے ہلمند کے پولیس سربراہ کی طرف سے بتایا گیا کہ غلطی سے کیے گئے ایک امریکی فضائی حملے میں کم از کم 16 افغان پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہلاکتوں کا پتا اس حملے کے بعد تباہ ہونے والی عمارت کے جائزے سے چلا۔

امریکی فوج کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں بھی اس حملے کی تصدیق کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ علاقے میں فضائی کارروائی اصل میں افغان فورسز کی مدد کے لیے طالبان کے خلاف کی گئی تھی۔