1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان سے مذاکرات، افغان حکومت متعدد اقدامات اٹھانے پر تیار

شادی خان سيف، کابل23 فروری 2016

افغان امن عمل کے لیے سرگرم چہار فریقی رابطہ گروپ نے طالبان اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی سمیت دیگر باغی گروہوں کو مارچ کے اوائل میں براہ راست امن مذاکرات کے لیے دعوت دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1I0c8
Afghanistan Treffen in Kabul - Afghanistan, Pakistan, USA & China
تصویر: Reuters/O. Sobhani

کابل میں چہار فریقی رابطہ گروپ کے چوتھے اجلاس کے بعد اعلان کیا گیا ہے کہ وہ تمام باغی گروپ جو اس تنازعے کا پر امن حل چاہتے ہیں، مارچ کے اوائل میں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات کریں۔ یہ اس گروپ کی چوتھا اجلاس تھا، جس میں امریکا، چین، پاکستان اور میزبان افغانستان کے نمائندوں نے شرکت کی.

پاکستان کی تجویز اور دعوت پر آئندہ مذاکرات اسلام آباد میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے. منگل کی صبح افغان وزارت خارجہ کی عمارت میں میزبان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے اجلاس کا افتتاح کیا. اپنے خطاب میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ امن کا حصول افغان عوام اور حکومت کی اولین ترجیح ہے تاہم امن مخالف عناصر کے ساتھ طاقت ہی سے نمٹا جائے گا. انہوں نے یہ نکتہ بھی واضح کیا کہ کسی صورت بھی اب تک ہوئی پیشرفت پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا. اس سے مراد عمومی طور پر یہ لی جاتی ہے کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جدیدیت اور تعمیر نو کے حوالے سے جو سنگ میل عبور کیے گئے ہیں، باالخصوص خواتین کے حقوق اور آزاد میڈیا کے حوالے سے، ان پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا.

طالبان سے بات چيت کے مخالفين اکثر يہ تشويش ظاہر کرتے ہیں. ربانی نے افغانستان میں قیام امن کی خاطر پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ شورش اور بدامنی تمام خطے کو مثاثر کر رہی ہے.

کابل حکومت نے QCG کے تازہ اجلاس سے قبل کچھ اہم قدم اٹھائے ہیں، جنہیں طالبان کے ساتھ براہ راست امن مذاکرات کے لیے سازگار ماحول کے قیام سے جوڑا جارہا ہے.

ایسا ایک قدم اعلیٰ سطحی افغان امن کمیٹی کی قیادت سینئر افغان سیاستدان پیر سید احمد گیلانی کو سونپنا ہے. گیلانی کو مذہبی حلقے قدر کی نگاہ سے ديکھتے ہیں.

اسی طرح شورش زدہ جنوبی صوبہ ہلمند میں بعض اضلاع سے مبینہ طور پر سکیورٹی دستوں کو واپس بلانے کا فیصلہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے باضابطہ طور پر اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا تاہم ایسی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اس کا مقصد طالبان کو ان کے زیر اثر علاقوں میں ’’جگہ‘‘ مہیا کرنا ہے. طالبان نے البتہ سکیورٹی دستوں کی واپسی کو "پسپائی" سے تعبیر کیا ہے.

تجزیہ کاروں کے بقول طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو کامیاب کرنا ایک خاصا پیچیدہ اور مشکل کام ہوگا. سینئر صحافی عاشق اللہ کے بقول خطے کے ممالک کو محض اپنے ذاتی مفادات سے بڑھ کر مخلصانہ اقدامات اٹھانے ہوں گے، ’’دوسری اہم بات طالبان کی تحریک کے اندر ملا عمر کی موت کے بعد پیدا ہونے والے اختلافات ہیں، کابل حکومت طالبان گروپوں سے مذاکرات کی بات کرتی ہے جبکہ ملا منصور کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ہی اصل طالبان ہیں.‘‘

افغان صدر محمد اشرف غنی نے 15 فروری کو ایک بیان میں براہ راست طور پر طالبان اور سابق جہادی رہنما گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی سمیت تمام باغی گروپوں پر واضح کیا تھا کہ ان کی حکومت امن اور افہام و تفہیم کے لیے پرعزم ہے. صدر غنی نے اس حوالے سے ایک ٹیم تشکیل دے رکھی ہے، جس میں وزیر خارجہ ربانی اور افغان امن کونسل کے علاوہ پاکستان میں نئے افغان سفیر حضرت عمر زاخیلوال اور سابق سفیر جانان موسٰی زئی فعال ہیں.