1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان مخالف لشکر اور ماورائے عدالت قتل

24 مارچ 2010

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ ملکی سیکیورٹی ایجنسیوں نے لوگوں کو طالبان مخالف لشکر بنانے پر مجبور کیا اور ان کے ذریعے ماورائےعدالت ہلاکتیں بھی کروائیں۔

https://p.dw.com/p/Mb0v
تصویر: AP

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی رپورٹ برائے 2009 میں خواتین کی ساتھ امتیازی سلوک، بچوں کی حالت زار اورغیرت کے نام پر ہلاکتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے لیکن جس انکشاف نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچائی وہ ہے مشتبہ طالبان کی ماوراء عدالت ہلاکتیں۔

رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریبا 300 مشتبہ طالبان عسکریت پسندوں کی لاشوں کو صوبہ سرحد کے علاقہ مالا کنڈ میں مختلف مقامات پر سٹرکوں پر پھینکا گیا یا پھر انہیں درختوں سے لٹکایا گیا۔ ان واقعات کی تفصیل بتانے ہوئے ایچ آر سی پی کے ڈائریکٹرآئی اے رحمان نے کہا: " بہت سی لاشیں اجتماعی قبروں میں ملی ہیں۔ بہت سی لاشوں کے بارے میں رپورٹیں چھپی ہیں اور ہم نے صرف اُن لاشوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے حوالے سے اخبارات میں خبریں چھپی ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ واقعات کس زمانے میں ہوئے ہیں اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے۔ مالا کنڈ میں فوجی آپریشن اکتوبر 2008 میں شروع ہوا تھا، جس میں اپریل 2009 میں شدت آئی۔ اس پورے عرصے میں کئی لاوارث لاشیں مالا کنڈ سےملی ہیں اور ہم حکومت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ یہ تحقیق کر کے بتائے کہ یہ لاشیں کن لوگوں کی ہیں۔ حکومت کو ایک کمیشن بنا کر اس معاملے کی تحقیق کرانا چاہیے۔"

Demonstration für Frauenrechte in Pakistan
انسانی حقوق کمیشن نے پاکستان میں خواتین کی حالت زار پر بھی آواز اٹھائی ہےتصویر: AP

آئی اے رحمن کا کہنا تھا کہ جب مالا کنڈ میں فوجی آپریشن ہورہا تھا تو وہ علاقہ ’نوگوایریا‘ بنا ہوا تھا۔ اب بھی صورتِ حال کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن جیسے ہی حالات معمول پر آجائیں گے، ایچ آر سی پی مالا کنڈ میں ایک تحقیقاتی کمیشن بھیجے گی۔

صوبہ سرحد کے سنیئرصحافی زاہد شیرازی نے ایچ آر سی پی کے اس دعوے پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا: " جب یہ خبریں آئیں کہ سوات یا مٹہ کے علاقے میں کوئی اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے تو میں نے ایچ آر سی پی کے پشاور آفس سے رابطہ کیا اور انہوں نے کہا کہ سوات کے مقامی لوگوں نے ایچ آر سی پی کو اس قبر کے بارے میں بتایا تھا۔ میں نے جب سوات میں کئی مقامی افراد سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پچھلے دو سالوں میں کوئی اس طرح کی ہلاکتیں نہیں ہوئی ہیں اور نہ کوئی قبر دریافت ہوئی۔ اُن کا تو بلکہ یہ شکوہ تھا کہ آرمی نے طالبان عسکریت پسندوں کو نہیں پکڑا۔ اگر ایچ آرسی پی اجتماعی قبرکے دریافت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو اُس کو کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے چاہیں۔ "

Neue Militäroffensive gegen Taliban in Pakistan
مالا کنڈ میں فوجی آپریشن اکتوبر 2008 میں شروع ہوا تھا، جس میں اپریل 2009 میں شدت آئیتصویر: picture-alliance/ dpa

آئی اے رحمن کا دعویٰ ہے حکومت نے اُن کی رپورٹ میں کئے جانے والے انکشافات کی تردید نہیں کی اور نہ ہی یہ کہا کہ یہ رپورٹ غلط ہے۔ "اگر ہماری رپورٹ غلط ہے تو حکومت کو اس کی تردید کردینی چاہیے لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا۔"

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت کو ایچ آرسی پی کے اس دعوے کی تحقیق کرنا چاہیئے اور حقائق سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔

رپورٹ عبدالستار

ادارت کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں