1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان نے ہمیں کبھی دبانے کی کوشش نہیں کی: واحد ہندو افغان سینیٹر

2 جولائی 2010

افغانستان کی معیشت میں ہمیشہ سے ہندوؤں اور سکھوں کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ تاہم موجودہ دور میں افغانستان میں ہندو اور سکھ برادریاں گو ناگوں مسائل سے دوچار ہیں۔

https://p.dw.com/p/O8w6
کابل میں دریافت ہونے والی ایک بدھ عبادت گاہ میں نصب مجسمہتصویر: DW

ہندوکُش کی تاریخ میں ہندوؤں اور سکھوں کی افغانستان میں موجودگی اسلام کی اس علاقے میں آمد سے کہیں پہلے ملتی ہے۔ ساتویں صدی سے لے کر ایک طویل عرصے تک افغانستان کی معیشت میں ہندوؤں اور سکھوں کا نہایت اہم کردار رہا ہے۔ تاہم موجودہ دور میں جنگ اور جارحیت سے تباہ حال ملک افغانستان میں ہندو اور سکھ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

47 سالہ اوتار سنگھ ، جو ایک سینیٹر اور افغانستان کی پارلیمان میں واحد غیر مسلم نمائندہ ہیں ، کہتے ہیں: ’ ہمیں نہ تو سر چھپانے کو چھت میسر ہے، نہ ہی زمین۔ ہمیں کسی قسم کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ حکومتی اہلکار ہماری کوئی بات نہیں سُنتے۔ ہمارے لئے صبر کرنا ہی بہتر ہے کیوں کہ ہمارے پاس کوئی اورچارہ ہی نہیں‘۔

Entdeckung eines buddhistischen Tempels in Kabul
کابل میں دریافت ہونے والی بدھ عبادت گاہتصویر: DW

1992ء میں ایک مختصر سا عرصہ پُرسکون اور خوشگوار تھا۔ ماسکو نواز حکومت کے خاتمے کے بعد اور افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے وہاں تقریباً 2 لاکھ ہندو اور سکھ آباد تھے، جبکہ آج کل ان کی تعداد محض چند ہزار ہے۔ کابل میں متصادم دھڑوں کے بیچ ہونے والی مسلحح جھڑپوں سے، جن میں راکٹوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے، ارد گرد کے تمام علاقوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہندو اور سکھ برادری ہوئی ہے۔ اس کی وجہ کسی حد تک تو ان دونوں برادریوں کا مذہب ہے لیکن اس لئے بھی کہ ان دونوں برادریوں کی کوئی اپنی ملیشیا فورس نہیں ہے، جو ان کو تحفظ فراہم کر سکے۔

Indien Ayodhya Moschee Flash-Galerie Kultureller Wiederaufbau
1992 ء میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے بایری مسجد کو منہدم کیا گیا تھاتصویر: picture alliance / dpa

بھارت میں ایک مسجد پر ہندو انتہا پسندوں کے حملے اور اُسے منہدم کرنے کے رد عمل میں افغانستان میں مسلح حملہ آوروں نے کابل میں قائم ایک مندر پر پتھ اؤ کیا اور ایک مذہبی کتاب کوبھی نقصان پہنچایا۔

استحصال، جبر وتشدد، اغوا، لوٹ مار، یہاں تک کہ عصمت دری جیسے مظالم سے تنگ آکر وہ ہندو اور سکھ افغانستان سے فرار ہوکربھارت چلے گئے، جن کے پاس وسائل موجود تھے۔ اب وہ انڈیا میں غیر ملکیوں کی طرح رہ رہے ہیں اور دیگر غیر ملکی باشندوں کی طرح انہیں بھی بھارتی حکام سے ویزہ لینا پڑتا ہے۔

اوتار سنگھ تاہم کہتے ہیں: ’ المیہ تو یہ ہے کہ انتہا پسند طالبان کے دورِ اقتدار کے دوران افغانستان میں ہندوؤں اور سکھوں کی صورتحال میں واضح بہتری پیدا ہوئی تھی اور اسے محسوس کرتے ہوئے چند تارکین وطن افغانستان کی طرف لوٹنے لگے تھے۔ طالبان نے کبھی بھی ہمیں دبانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ہمارے مذہب کا احترام کرتے تھے اور اگر کبھی ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو انہوں نے اُسے فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کی‘۔

طالبان نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں سکھوں سے کہا گیا تھا کہ وہ زرد رنگ کا ایک ٹیگ پہنیں تاکہ ان کی شناخت ہو سکے، اس لئے کہ سکھ مرد بھی داڑھیاں رکھتے ہیں۔ عملی طور پر یہ سکھوں کے لئے طالبان کے حملوں سے بچنے کا ایک طریقہ تھا۔ تاہم اس پر مغربی دنیا نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ مغربی ممالک کے اس ردعمل پر چند افغان ہندوؤں نے نکتہ چینی بھی کی تھی۔

BdT Sikh Pilger im Zug nach Pakistan
سمجھوتا ایکسپریس پر سوار سکھ زائرین پاکستان جاتے ہوئےتصویر: AP

طالبان دور کے خاتمے کے بعد افغانستان کے نئے آئین میں اقلیتوں کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزادی دینے کا وعدہ تو کیا گیا ہے تاہم عملی طور پر اقلیتوں کی آزادی کو یقیی بنانا پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ مشکل نظر آ رہا ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی میں ہندوؤں اور سکھوں کی بہت سی املاک چوری ہوئیں۔ ہزاروں ہندو اور سکھ باشندے موجودہ حکومت سے اپنے املاک کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم انہیں کابل حکومت کی بیورو کریسی سے کسی مثبت جواب کی امید نہیں ہے۔

افغان سینیٹر اوتار سنگھ کے مطابق ان کی فیملی ابھی بھی بھارت میں ہے، کیوں کہ افغانستان میں وہ اپنا گھر بار اور جائیداد سب کھو چکے ہیں۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی