1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا خاتمہ: مشترکہ حکمت عملی کی پاکستانی تجویز

29 نومبر 2009

پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی پیر کو چار روزہ دورے پر جرمنی پہنچ رہے ہیں۔ اس سےقبل ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے مغربی ملکوں پر زور دیا ہے کہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے۔

https://p.dw.com/p/KkOi
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانیتصویر: AP

جرمن خبررساں ادارے 'ڈی پی اے' سے خصوصی بات چیت میں انہوں نے افغان مشن کے لئے اضافی فوجیوں پر اسلام آباد کی تشویش کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں فوجیوں کی اضافی تعیناتی سے وہاں کے عسکریت پسند پاکستان کا رُخ کر سکتے ہیں اور اسی بات کا ہمیں ڈر ہے۔

یوسف رضا گیلانی کل پیر کو چار روزہ دورے پر برلن پہنچ رہے، جو وزارت اعظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ان کا پہلا دورہ جرمنی ہے۔ جرمنی نیٹو کا انتہائی اہم رکن ہے اور افغانستان میں امریکہ اور برطانیہ کے بعد اسی کے سب سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ جرمنی کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔

Flash-Galerie Wahlen in Afghanistan 2009
اوباما انتظامیہ افغانستان میں مزید فوجی تعینات کرنے پر غور کر رہی ہےتصویر: AP

مغربی ملکوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انتہا پسندوں کے خاتمے کے لئے پاکستان کی کوششیں ناکافی ہیں۔ تاہم وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کو اپنی فورسز کی استعداد بڑھانے کے لئے عالمی برادری کی معاونت درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز کی استعداد کار میں اضافے سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں اور بھی مؤثر ہوں گی۔

گیلانی نے کہا کہ جرمنی نیٹو کا ایک اہم رکن ہے اور عالمی سطح پر پاکستانی مؤقف کی وضاحت کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ڈی پی اے سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کو پاکستان اور افغانستان سے متعلق روڈ میپ اسلام آباد کے ساتھ مشاورت سے طے کرنا چاہئے۔

گیلانی نے کہا، 'ہمیں ایک دوسرے کو غیرمستحکم بنانے کے بجائے، ساتھ دینا چاہئے۔'

پاکستانی وزیر اعظم کا یہ بیان امریکی صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں تقریبا تیس ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی کے اعلان سے قبل سامنے آیا ہے۔ امریکی قیادت شورش زدہ افغانستان کی صورت حال پر گزشتہ کئی ہفتوں سے غور کر رہی ہے، جہاں اتحادی افواج پر شدت پسندوں کے حملوں میں روزبروز اضافہ ہوا ہے۔

افغان مشن کے لئے اضافی فوجیوں پر پاکستان کو ہی تشویش نہیں، بلکہ نیٹو کے بعض رکن ممالک ایسے اقدام کے حامی نہیں۔ جرمنی کے چار ہزار فوجی وہاں تعینات ہے اور برلن حکومت نے مزید فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں اپنا فیصلہ مؤخر کر رکھا ہے۔

افغانستان میں گزشتہ آٹھ برس سے جاری جنگ طالبان کے خلاف کامیابی کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ یہ صورت حال مغربی ملکوں کے لئے کشمکش کا باعث بنی ہوئی ہے اور وہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں جبکہ پاکستان کو اپنی داخلی سلامتی کا خدشہ لاحق ہے۔

2 Miran Shah
پاکستانی فوج وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن کر رہی ہےتصویر: AP

پاکستان اور افغانستان کی سرحد طویل ہے اور پاکستان کے ایک لاکھ سے زائد فوجی اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے سرحدی علاقے وزیرستان میں طالبان کے خلاف آپریشن میں بھی مصروف ہیں۔ پاکستانی طالبان کہلانے والے یہ شدت پسند 2007ء کے بعد سے ملک میں متعدد حملے کر چکے ہیں، جن میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔

'ڈی پی اے' کے ساتھ انٹرویو میں یوسف رضا گیلانی نے یہ بھی بتایا کہ دورہ جرمنی کے دوران اسلام آباد اور برلن حکومتوں کے مابین سمجھوتے کی ایک یادداشت پر بھی دستخط کئے جائیں گے۔ تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دورہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہو گا اور ان کے باہمی تعلقات کو فروغ حاصل ہوگا۔ گیلانی نے کہا کہ یورپی منڈیوں میں پاکستان کی زیادہ سے زیادہ رسائی کے لئے بھی برلن حکومت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید