1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے تباہ کردہ اسکول اور بحالی کی صورتحال

13 مئی 2010

پاکستان میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف عسکری اور غیر عسکری جدوجہد کے باوجود جو ایک شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، وہ انتہا پسندی اور طالبان کے مسلح حملوں کے شکار علاقوں میں تعلیم کا شعبہ ہے۔

https://p.dw.com/p/NMpF
طالبان دور میں خواتین کو نہ صرف گھر سے نکلنے پر پابندی کا سامنا تھا بلکہ انہیں تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھنے کی کوششیں بھی کی گئیںتصویر: AP

پاکستانی قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا کے طالبان کی عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں حکومتی عملداری بحال کرنے کی کوششیں تو کی جا رہی ہیں، لیکن ابھی بھی کئی مقامات پرطالبان ہی مقامی سطح پر طاقت کے حامل ہیں۔

Schule in PAGHMAN in der Provinz KAPISA, Afghanistan Kinderhilfe Afghanistan
متعدد جرمن امدادی ادارے افغانستان میں لڑکیوں کے اسکولوں کی مدد کر رہے ہیںتصویر: ERÖS

سن 2007ء میں قبائلی علاقوں اور پختونخوا کے چند اضلاع میں طالبان نے اپنی جو مسلح کارروائیاں شروع کی تھیں، ان میں مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد اسکولوں کو تباہ کر دیا گیا۔ اب خاص کر ان علاقوں میں، جہاں سے طالبان کو نکالا جا چکا ہے، زیادہ تر چھوٹے بچوں کے لئے قائم یہ تعلیمی ادارے دوبارہ کھولنے اور وہاں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا کام جاری ہے۔

تاہم وہ علاقے، جہاں ابھی تک طالبان کا اثرو رسوخ باقی ہے، وہاں تباہ شدہ اسکولوں کی تعمیرو مرمت یا انہیں دوبارہ کھولنے کا کام شروع نہیں کیا جا سکا۔ صرف پاکستانی قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے ہاتھوں اب تک 600 سے زائد اسکول تباہ ہوئے ہیں، جن میں سے محض بیس اسکولوں کو تا حال دوبارہ کھولا جا سکا ہے۔

ایسے واقعات سے متاثرہ قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی کے ایک اسکول ٹیچر گل رحیم خان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں بتایا کہ عسکریت پسندوں کی مسلح کارروائیوں میں تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں میں ان کا اسکول بھی شامل تھا، جو ابھی تک دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا، حالانکہ حکومت سے اس بارے میں کئی بارتحریری درخواستیں بھی کی گئیں۔

Afghanische Frauen lernen lesen und schreiben
تعلیم کے بہت کم مواقع اور دشواریوں کے باوجود بچیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا چاہتی ہیںتصویر: AP

گل رحیم خان کے تباہ شدہ اسکول کو پاکستانی فوج اور مقامی پولیٹیکل انتظامیہ نے خیمے تو مہیا کئے ہیں، لیکن گرمی، دھوپ اور بارشوں کے باعث وہاں زیر تعلیم بچوں کو شدید نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستانی قبائلی علاقوں میں سے، جو مجموعی طور پر سات قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل ہیں، سب سے زیادہ یعنی 85 تعلیمی ادارے صرف باجوڑ ایجنسی میں تباہ کئے گئے۔ اس کے بعد مہمند ایجنسی کا نام آتا ہے، جہاں طالبان نے 45 اسکول تباہ کئے جبکہ خیبر ایجنسی میں بھی طالبان اب تک 15 تعلیمی ادارے تباہ کر چکے ہیں۔ اورکزئی ایجنسی میں صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں صرف اسی سال اپریل کے مہینے میں کل 12 اسکول تباہ کر دئے گئے۔

مہمند ایجنسی سے پاکستانی سینیٹ کے منتخب رکن سینیٹر حافظ رشید نے اسلام آباد میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا کہ حکومت تعلیمی اداروں کی بحالی کے کاموں میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

Fashionshow in Peshawar Mode Modenschau
پشاور میں لڑکیوں کی تعلیم کے علاوہ ان کی ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کی کوششیں بھی محتاط طریقے سے جاری ہیںتصویر: Fareed Ullah Khan

انہوں نے کہا: ’’وقتا فوقتا صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ان اسکولوں کی بحالی کے لئے وعدے اور اعلانات تو کرتے رہتے ہیں، لیکن ابھی تک ان وعدوں اور اعلانات پر مکمل عملدرآمد نہیں کیا گیا۔‘‘

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام فاٹا کہلانے والے انہی قبائلی علاقوں میں سرکاری املاک کی بحالی کے نگران اور سیکریٹری برائے لاء اینڈ آرڈر طارق حیات نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بحالی کا کام ابھی تک جاری ہے۔

انہوں نے کہا: ’’اب تک اس سلسلے میں 20 کے قریب اسکولوں کی تعمیرنو مکمل ہو چکی ہے، لیکن اس منصوبے کے مکمل ہونے میں مزید کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔‘‘ طارق حیات کے بقول ان کی انتظامیہ کے پاس فنڈز کی بہت کمی ہے۔

پاکستانی دارالحکومت میں وزارت تعلیم کے حکام اور متاثرہ علاقوں میں اسکول نہ جا سکنے والے بچوں اور بچیوں کے والدین اور ان کے اساتذہ کے بیانات کو مدنظر رکھا جائے تو ابھی تک جملہ تعلیمی ادارے دوبارہ نہ کھل سکنے کی وجہ سے صورتحال انتہائی پریشان کن تو ہے لیکن ناامید کر دینے والی نہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں، اسلام آباد

ادارت: کشور مصطفیٰ