1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طبلیسی کا فائربندی اعلان اور مذاکرات کا مطالبہ

10 اگست 2008

قفقاذ کاعلاقہ ابھی تک اس لئے جنگی حالت اور بے یقینی کا شکار ہے کہ جارجیا نے یکطرفہ فائربندی کا اعلان توکردیا ہے مگر روسی طیاروں کی طرف سے طبلیسی کے سول ایئر پورٹ کے نواح تک میں حملے کئے گئے۔

https://p.dw.com/p/Eu0i
جنوبی اوسیتیا میں خونریز حملوں کے باعث وہاں سے نقل مکانی کرنے والے چند شہری روسی سرحد کی طرف جاتے ہوئےتصویر: AP

جارجیا نے جب جنوبی اوسیتیا کے تنازعے کی وجہ سے شروع ہونے والی لڑائی میں یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کیاتو ساتھ ہی طبلیسی میں وزارت خارجہ نے ماسکو سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ فوری طور پر جارجیا کے ساتھ امن مزاکرات شروع کرے۔ قبل ازیں جارجیا کے علیحدگی پسند علاقوں جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ کی وجہ سے تنازعے میں روس نے بحیرہ اسود سے ملحقہ جارجیا کے ساحلی خطے کی ناکہ بندی کردی تھی۔ روسی خبر ایجنسیوں نے بتایا کہ اس اقدام کا مقصد بحیرہ اسود کے راستے جارجیا کو ہتھیاروں کی ممکنہ فراہمی روکنا ہے۔

ساتھ ہی روس نے جنوبی اوسیتیا اور ابخازیہ میں اپنی فوجی موجودگی میں بھی واضح اضافہ کردیا ہے۔ طبلیسی حکومت کے مطابق روس نے اپنے مزید دس ہزار فوجی ان علاقوں میں بھیج دیئے ہیں۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق جارجیا علیحدگی پسند علاقے جنوبی اوسیتیا سے اپنے زیادہ تر فوجی واپس بلاچکا ہے جس کے بعد وہاں کے علاقائی دارلحکومت سخِنوالی کا اکثر حصہ اب روسی دستوں نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔

اتوار کے روز سخِنوالی سے اپنے دستوں کے انخلاء کے بعد طبلیسی میں جارجیا کی حکومت نے یہ خدشات بھی ظاہر کرنا شروع کردیئےکہ روس جارجیا ہی کے ایک اور علیحدگی پسند لیکن ماسکو نواز علاقے ابخازیہ پر حملہ کرکے جارجیا کے خلاف مغرب کی طرف سے ایک اور جنگی محاذ کھولنے کی تیاریاں بھی کررہا ہے۔

Schwere Kämpfe in Südossetien Brennendes Haus
جارجیا کے شہر گوری پر روسی جنگی طیاروں کی بمباری کےبعدایک جلتی ہوئی عمارتتصویر: picture-alliance /dpa

کل ہفتہ کے روز جارجیا کے صدر میخائیل ساکاشویلی کی طرف سے جنگ بندی کی مشروط پیشکش کے بعد یہ ہلکی سی امید پیدا ہوئی تھی کہ قفقاذ کے علاقے میں یہ خونریز تنازعہ شاید زیادہ پھیلے گا نہیں لیکن اتوار کے دن کی مجموعی پیش رفت اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ مسئلہ بظاہر اتنی جلد حل ہونے والا نہیں ہے۔ روسی ذرائع کے بقول جنوبی اوسیتیا کے تنازے میں اب تک قریب دوہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سےماسکو کے دعووں کے مطابق اکثریت کی موت کی ذمے دار طبلیسی حکومت ہے۔ اسی دوران جارجیا کے دوبارہ انضمام کے ملکی وزیر یاکوباشویلی نے کہا ہے کہ دشمن طیاروں کی مدد سے ابخازیہ کے نواح میں جارجیا کے ایک شہر زُگدیدی کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ان حالات میں عالمی سلامتی کونسل اور مختلف ملکوں کے رہنماؤں کے علاوہ پاپائے روم نے بھی روس اور جارجیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی اپنی فوجی کارروائیاں بند کردیں اور مسئلے کا پر امن حل تلاش کریں۔ جنوبی اوسیتیا کے تنازعے میں جارجیا کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے روسی وزیر اعظم ولادیمیر پوٹین نے کہا کہ انہیں قفقاذ کے خطے میں حالیہ صورت حال اور جارجیا کے رویئے پر بہت زیادہ افسوس ہے اور ان کی نظر میں یہ روئیہ نسل کشی کی سوچ کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس کے برعکس جارجیا کے صدر ساکاشویلی نے کہاکہ یہ جنگ جنوبی اوسیتیا کے بارے میں نہیں ہےکیونکہ اس جنگ کا جنوبی اوسیتیا سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ایک ایسی قوم اور جمہوری ریاست کو تباہ کرنا ہے جو امن ور آزادی سے زندہ رہنے کی خواہش مند ہے۔ اس بارے میں امریکی صدر بش نے کہاکہ امریکہ روسی بمباری کا خاتمہ چاہتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس مسئلے کے فریقین چھ اگست سے پہلے تک کی صورت حال کی بحالی کو یقینی بنائیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں