1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طلاق یافتہ یا بیوہ سعودی خواتین کے لیے امید کی کرن

کشور مصطفیٰ2 دسمبر 2015

سعودی عرب میں طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین کو خاندانی امور کے فیصلے کرنے کے لیے آئندہ سے مردوں یا عدالت کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

https://p.dw.com/p/1HFzV
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine

سعودی عرب کے ایک اخبار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس معاشرے میں خواتین کو خاندانی امور میں مردوں اور عدالتوں کی اجازت کے بغیر فیصلوں کا اختیارحاصل ہوگا۔ یہ پیش رفت مردوں کی اجارہ داری اور فرسودہ روایات پر چلنے والی عرب بادشاہت میں خواتین کو معاشرتی اور قانونی اختیارات دینے کی راہ میں ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اس طرح سعودی مردوں کو خواتین رشتہ داروں پر جو قانونی اختیارات حاصل ہیں انہیں کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اخبار الریاض نے کہا ہے کہ سعودی وزارت داخلہ آئندہ سے فیملی شناختی کارڈ محض مردوں نہیں بلکہ طلاق یافتہ اور بیوہ خواتین کے لیے بھی جاری کرے گی جس کا مقصد انہیں چند خاندانی معاملات میں با اختیار بنانا ہے۔ جیسے کے بچوں کی اسکول میں رجسٹریشن، طبی معاملات میں معلومات حاصل کرنے کے اختیارات اور ریکارڈز تک رسائی کے حقوق۔

Symbolbild Hochzeit in Saudi-Arabien
شادی سے لے کر طلاق تک ہر معاملے میں سعودی مرد ہی فیصلہ کرتے ہیںتصویر: F.Nureldine/AFP/GettyImages

مرحوم شاہ عبداللہ کے دور میں اس مطلق العنان اسلامی سلطنت میں عورت کو کچھ حقوق دینے کے لیے اصلاحات متعارف کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی خواتین کو میسر حقوق اور اختیارات شدید محدود ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کو آزادی دلانے کی ہر کوشش کو طاقت ور مذہبی رہنماؤں اور ایک انتہائی قدامت پسند معاشرے کی طرف سے ناکام بنا دیا جاتا ہے۔

اخبار الریاض نے تاہم طلاق یافتہ خواتین اور بیوہ عورتوں کو اختیارات دینے کے ضمن میں اس خبر کی تفصیلات بیان نہیں کی ہیں۔

سعودی عرب میں مرد اپنی خواتین رشتہ داروں اور ریاست کے مابین تعلق میں تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ان معاملات میں کوئی تبدیلی آنے کا مطلب خواتین کی روزمرہ زندگی خاص طور سے طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کی، اُن میں بھی ایسی خواتین جو اپنے بچے کی پرورش تنہا کر رہی ہیں، کی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔

اب تک سعودی معاشرے میں یہ ہوتا رہا ہے کہ ایک طلاق یافتہ عورت کو اگر اپنے بچے کی اسکول میں رجسٹریشن کرانی ہے یا کسی طبی معاملے میں کوئی معلومات لینی اور فیصلہ کرنا ہے تو اُسے پہلے اپنے طلاق یافتہ مرد سے اجازت لینا پڑتی ہے اور اگر وہ اجازت نہ دے تو پھر یہ خاتون قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے یا عدالت میں جاتی ہے۔

Saudische Moderatorin misshandelt
تشدد کا نشانہ بننے والی سعودی عرب کی ایک ٹی وی شو پریزنٹرتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

سعودی عدالت میں درج کیسس میں سے 65 فیصد فیملی اسٹیٹس سے متعلق ہوتے ہیں اور یہ دراصل اس فرسودہ معاشرے کے طویل اور گروہ دار نظامِ انصاف کو مزید پیچیدہ بنانے کا سبب بنتے ہیں۔

سعودی عرب وہ واحد ملک ہے، جہاں اب بھی خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت نہیں۔ اس عرب معاشرے میں لڑکیوں اور عورتوں کی زندگیوں کے اہم ترین فیصلوں سے لے کر ان کی روز مرہ زندگی کی سرگرمیوں میں بھی ان کا نگہبان ایک مرد کو ہی سمجھا جاتا ہے، جو باپ، بھائی یا شوہر کی حیثیت سے خواتین کا مُختار کُل ہے۔