1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طلبان کے خلاف فوجی آ پریشن:جنت وادی سوات جہنم نما

تحریر: عابد حسین ، ادارت: ندیم گِل9 مئی 2009

سوات اپریشن کے دوران فوج نے مختلف علاقوں میں کرفیو میں وقفہ دینے کا فیصلہ کیا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کرسکیں۔ اس سلسلے میں مزید کیمپ قائم کردیئے گئے ہیں۔ صوبے کی حکومت نے دیگر صوبوں سے امداد کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/HmeO
مالاکنڈ ڈویژن میں جاتی پاکستانی فوجیتصویر: AP

مالاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع میں کرفیو کی نرمی کے دوران ہزاروں افراد نے محفوظ مقامات کی جانب سفر شروع کردیا ہے۔ اِسی کے ساتھ ساتھ فوج جو ابھی مینگورہ کو طالبان کے کنٹرول سے واپس نہیں لے پائی ہے، اُس نے پیش بندی کے طور پر مینگورہ کے قریبی علاقوں قمبر اور رحیم آباد کی ساری آبادی کو منتقلی کا حکم دیا ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے تمام جنگ زدہ علاقوں میں خوراک اور پانی کی قلت کی وجہ سے انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔

Pakistan Flüchtlinge aus dem Swat Tal
مردان میں سوات کے بے گھر: گرما گرم چائےکے لئے قطار میں کھڑےتصویر: AP

دوسری طرف طالبان کے خلاف آپریشن کے حوالے سے فوج کی جانب سے مختلف دعوے سامنے آئے ہیں۔ فوج کے مطابق اُس کی گولہ باری اور جیٹ طیاروں کی فائرنگ سے مختلف مقامات پر بے شمار طالبان کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ جن کی تعداد اب دو سو تک بتائی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں نو دس اہم کمانڈر بھی ہیں۔ اِس کے جواب میں سوات کے انتہاپسند طالبان کے ترجمان مسلم خان نے ہفتہ کے روز ہونے والی ہلاکتوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی جانب سے نشانوں پر شیلنگ ضرور کی گئی لیکن اُن کے صرف تین ساتھی ہلاک ہوئے ہیں۔

فوج کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ طالبان کے ایک اور مرکز واقع لوئی نمل کو تباہ کردیا گیا ہے۔ طالبان کی جانب سے بینک لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انتہاپسند طالبان نےمینگورہ شہر کے قریبی علاقے کانجو میں ایک طالبات کے پرائمری سکول کو بھی تباہ کردیا گیا ہے۔ مینگورہ میں فوجی مرکز واقع سرکٹ ہاؤس پر بھی طالبان کی جانب سے مارٹر گولے داغے گئے جن سے دو اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ پہاڑی علاقے شانگلہ پر قائم طالبان ٹھکانے بھی اب فوج کے نشانے پر ہیں۔

Flucht aus dem Swat-Tal
سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کا بس سٹینڈتصویر: AP

پوری طرح فوجی اپریشن شروع ہونے کے بعد وہاں دندناتے انتہاپسند طالبان عسکریت پسندوں کے پاؤں اکھڑنا شروع ہو گئے ہیں اور کئی مقامات پر وہ پیچھے ہٹنے کے عمل میں ہیں۔ البتہ مینگورہ شہر اب بھی انہی شدت پسندوں کے تصرف میں ہے۔ فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے مینگورہ بازار میں گزشتہ روز قابض انتہاپسندوں کے ایک مرکز پر فائرنگ کی تھی۔

مالاکنڈ ڈویژن میں تقریباً پندرہ ہزار فوجی انتہاپسندوں کے مکمل خاتمے کے لئے اپریشن میں شریک ہیں۔ پاکستان وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے علاوہ صدر زرداری نے بھی اِن شدت پسندوں کا صفایا کرنے کا وعدہ دیا ہے۔

انتہاپسندوں کی کارروائیوں اور پھر فوجی اپریشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بے سرو سامانی اور نقل مکانی کا سامنا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ طالبان عسکریت پسند لوگوں کی محفوظ مقامات تک پہنچنے کے عمل کو روکنے کے لئے راستوں کو بند بھی کر رہے ہیں۔ اِس کے لئے وہ پہاڑی چٹانوں اور کٹے ہوئے درختوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ انتہاپسند طالبان کئی مقامات پر عام شہریوں کو پابند کرنے کے بعد اُن کے گھروں کو بطور مورچہ بھی بنائے ہوئے ہیں جس سے فوجی کارروائی کے دوران عام شہریوں کی ہلاکت میں اضافے کا امکان ہے۔

Pakistan Flüchtlinge aus dem Swat Tal
مردان میں قائم کیمپتصویر: AP

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مختلف مقامات کی بازیابی میں فوج کو انتہاپسند وں کی شدید مزاحمت کا بھی سامنا ہے۔ اِس مناسبت سے پاکستان کے وزیر اعظم اِس پیچیدہ صورت حال میں جاری جنگ کو غیر معمولی قرار دے چکے ہیں۔ اُن کے خیال میں یہ گوریلا جنگ ہے۔

گزشتہ جمعہ کو طالبان کے ایک اور کمانڈر ضیاء الدین کو اُن کے تیرہ ساتھیوں سمیت ہلاک کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک اور جگہ مولانا صوفی محمد کے ایک دوسرے بیٹے رضوان اللہ کا گھر بھی فوجی کارروائی میں تباہ ہو گیا ہے۔ اِس سے پہلے ان کا ایک بیٹا کفایت اللہ گن شپ ہیلی کاٹر کی فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو چکا ہے۔ بقول مقامی لوگوں کے جو آگ صوفی محمد نے لگائی ہے اب اُس کی چنگاریاں اُن کے گھر پہنچنا شروع ہو گئی ہیں، اسی سے اُن کو آگ کی شدت اور تپش کا احساس ہو گا۔

Pakistan Flüchtlinge aus dem Swat Tal
مالاکنڈ پہاڑیوں کے دامن میں واقع درگئی، شورش زدہ علاقوں سے شہریوں کے لے کر پہچنے والی گاڑیاںتصویر: AP

پاکستانی حکومت کے بحران سے نمٹنے والے ادارے نے بتایا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن سے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے والے افراد کی رجسٹریشن جاری ہے۔ مردان اور صوابی سمیت کئی اور کیمپوں میں ہزاروں افراد پہنچ چکے ہیں۔ سات نئے کیمپ قائم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ شمال مغربی سرحدی صوبے کی حکومت کے وزیر اطلاعات میاں اففتخار حسین نے بین الاقوامی برادری اور مرکزی و صوبائی حکومتوں سے امداد کی اپیل کی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے ایک ارب روپے کیمپ میں پہچنے والوں کے لئے مختص کئے جا چکے ہیں جو صوبائی حکومت کے مطابق کم ہیں۔ پاکستان کےدیگر شہروں میں سیاسی لیڈروں کے ساتھ مخیر حضرات نے مہاجرت کا شکار ہونے والے لاکھوں افراد کی مالی امداد، اشیائے خوردو نوش اور اور دوسرے سامان کی فراہمی کے لئے کوششیں شروع کردی ہیں۔