1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی اقتصادی بحران :بھارت اور چین کی اقتصادیات

عابد حسین18 مارچ 2009

عالمی منظر نامے پر پائی جانے والی اقتصادی کساد بازاری کے اثرات ترقی یافتہ ملکوں کے سے ہوئے اب بڑے ترقی پذیر ملکوں کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ چین، بھارت اور برازیل سمیت دوسرے بڑے ملک اپنی اپنی پیش بندیوں میں مصروف ہیں۔

https://p.dw.com/p/HElP
چین کے وزیراعظم وین جیا باؤ کانگریس سے خطاب کے دورانتصویر: AP

گذشتہ سال جب اقتصادی بحران کی آندھی کی گرفت میں امریکہ اور مغربی ملکوں کی اقتصادیات آئیں تو یہ اندازے لگائے جا رہے تھے کہ ترقی پذیر ملکوں کی بڑی اقتصادیات بھی اِس کی لپیٹ میں آ سکتی ہیں۔ مگر بھارت اور چین کے وزرائے اقتصادیات نے اپنے اپنے ملکوں کی صنعتوں کے حجم اور بڑے زرمبادلہ کے ذخائر کے تناظر میں کہا تھا کہ اُن کے ملک اِس اقتصادی بحران کی گرفت سے محفوظ رہیں گے۔ سن دو ہزار آٹھ کے اختتام پر چین میں تو اِس کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ تب چین کے چھوٹے کارخانہ دار اپنی اپنی مصنوعات امریکہ روانہ کرنے سے محروم ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن کو اپنے کاروبار کو یا تبدیل کرنا پڑا یا پھر بند کرنا پڑا۔ چین میں شرحِ بے روزگاری میں بھی اضافہ سامنے آنے لگا تھا۔

بھارت اور چین دنیا کے بڑی آبادی والے ملک ہیں۔ دنیا کی کُل آبادی کا سینتیس فی صد اِن دونوں ملکوں میں آ باد ہے۔ اقتصادی کساد بازاری کے اثرات سے دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنی سی کوششیں کر رہی ہیں۔ دونوں ملکوں کی کوشش ہے کہ کسی طرح اقتصادی ترقی کو سست ہونے سے بچایا جائے جو کم از کم اِس سال مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں کسادبازاری کے پورے اثرات سامنےآ چکے ہیں۔ اس کے سبب چین اور بھارت کی ایکسپورٹ کی عالمی مارکیٹ میں کھپت کم ہونے سے براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔ اگر یہ بحران صرف امریکہ تک محدود رہتا تو یہ دونوں ملک یورپ کو ٹارگٹ کر سکتے تھے۔ مگر یورپ کے کسادبازاری کی لپیٹ میں آ جانے کے بعد اب چین اور بھارت اپنے اپنے خطوں یا علاقوں میں ایکسپورٹ کی منڈیوں کو بڑھانے کی فکر میں ہیں۔

China Indien Ministerpräsident Manmohan Singh in Peking
بیجنگ میں چین اور بھارت کے حوالے سے ایک کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ خطاب کے دورانتصویر: AP

بد قسمتی سے چین اور بھارت کے ہمسایہ ملکوں میں غربت افزائش پا رہی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت دوسرے ملک چین اور بھارت کا سروس ایریا تو بن سکتے ہیں مگر اُن کے کُل مال کی کھپت کی منڈی بننے سے قاصر ہیں۔ یہی حال ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا ہے۔

چین تو اپنی ملک کے لئے تقریباً چھ سو ارب ڈالر کے مالی پیکج کا اعلان کرچکا ہے۔ بھارت بھی کئی طرح کے خصوصی اقدامات میں مصروف ہے۔ ماہرین کے خیال میں یہ اقدامات اگلے دنوں میں ناکافی ہوں گے۔ چین کی اقتصادی ترقی کی رفتار کے سست ہونے کے اندازے سامنے آنے لگے ہیں ۔ اِس سال کے دوران چین کی ترقی کی شرح آٹھ فی صد سے گر کر ساڑھے چھ فی صد ہو سکتی ہے۔ جب کہ بھارت کی شرح ترقی سات فی صد پر رہنے کے جو اندازے فی الحال لگائے جا رہے ہیں وہ سر دست اطمننان بخش تو ہو سکتے ہیں لیکن صورت حال کوحوصلہ افزاء نہیں قرار دیا جا سکتا۔

بھارت میں کساد بازاری کے خدشات کے تناظر میں بتایا جا رہا ہے کہ تیل کی اوپر نیچی ہوتی قیمتوں کے علاوہ زرعی شعبے میں پائیدار بنیادی ڈھانچے کی کمی، حکومتی ، کاروباری اور عام آدمی پر قرضوں کا بوجھ اور ایکسپورٹ میں کمی کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس کے مسلسل بڑھنے سے بھارت کو بھی چین کی طرح کساد بازاری کے گہرے اثرات کا سامنا ہو گا۔ سن دو ہزار سے بھارت کی مالی منڈیوں میں حصص کی قیمتوں میں پیدا شدہ اضافہ ناپائیدار بھی ہو سکتا ہے۔

امریکہ اور یورپ میں ما لی بحران کے تناظر میں پروٹیکشنزم کی بات کی جا رہی ہے۔ اِس میں اقوام اپنے تجارتی رابطوں کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سینتالیس ممالک عالمی نقشے پر کسادبازاری کے باعث پروٹیکشنزم کی پالیسیوں پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسے اشارے بھی سامنے آئے ہیں کہ ایکسپورٹ کی شرح گزشتہ اسی سالوں کے دوران سب سے نچلی سطح پر آ سکتی ہے۔ تجارتی روابط کو محدود کرنے والے سترہ ملک گروپ ٹونٹی کے رکن ہیں۔