1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی اقتصادی بحران مزید گہرا ہوتا ہوا

عابد حسین22 مارچ 2009

دنیا کو کئی اور چیلنجز کا سامنا ضرور ہو گا مگر سرِ دست سب سے بڑا چیلنج اقتصادی بحران ہے۔ اِس سے نبرد آزما ہونے کے بعد ہی دنیا بھر اندرونی صورت حال بہتر ہو گی اور زمین پر امن کو فروغ مل سکے گا۔

https://p.dw.com/p/HHEt
یورپ کے مرکزی بینک کی عمارت: کمزور یورپی اقتصادیات کو بہتر کرنے کے سلسلے میں مشاورت کا سلسلہ ہمہ وقت جاریتصویر: AP

مالیاتی بحران، امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں اقتصادی کساد بازاری کا ساماں پیدا کر چکا ہے۔ اب اِس گردباد کے چنگل میں چین، بھارت اور برازیل سمیت دوسرے بڑے ترقی پذیر مبکوں کی اقتصادیات پتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مسلسل اقتصادی پیکجوں اور کمزور بینکوں کو سہارا دینے کے بعد مالی اداروں میں معمولی سے بہتری کی صورت پیدا ہوئی ہے اور مالی منڈیاں اب حصص کی قیمتوں میں گراف کے بہتر ہونے کے اندازے لگا رہی ہیں۔

Deutschland Finanzkrise Börse in Frankfurt Börsenmakler und Kurve
عالمی مالیاتی بحران، مالی منڈیوں میں عدم استحکام، کاوبار ڈوبتے ہوئے، جرمن مالی منڈی میں حصص گرتے ہوئے۔ ایک فائل فوٹوتصویر: AP

چین کی سالانہ ترقی کی رفتار اِس سال کم ہو کر ساڑھے چھ فی صد ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اِس خدشے کے باعث چین نے ایک بہت بڑا تحریکی اقتصادی پیکج متعارف کروانے کی پلاننگ کی ہے۔ اِس کے قابل عمل ہونے سے چین کی گرتی سالانہ شرحِ نمو میں ڈیڑھ فی صد اضافے کا امکان ہے۔ بھارت بھی اقتصادی پیش بندیوں کا عمل جاری ہے۔

چین کے ہمسایہ ملک جاپان کے وزیر خزانہ Kaoru Yosanoکے کہنا ہے کہ جاپان کی سست اقتصادیات کو ایک بہت بڑے تحریکی پیکج کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں وزیر اعظم تارو آسو نے پچھلے ہفتے میں ہدایت بھی جاری کی تھیں۔ اب امکاناً دو سو ارب ڈالر کے امدادی پیکج کو متعارف کروانے کی پلاننگ کی گسی ہے۔ جاپان کی اقتصادیات پچھلے پینتیس سالوں کے بعد خستہ حالوں میں پہنچی ہے۔

China 100 Yuan Banknoten
چینی کرنسی عالمی اقتصادیات میں اہمیت اختیار کرتی ہوئیتصویر: AP

موجودہ سال عالمی اقتصادیات کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہونے کے اندازے لگائے جا چکے ہیں۔ عالمی بینک کے صدر رابرٹ زوئلک نے سن دو ہزار نو کو اقتصادی اعتبار سے خطرناک سال قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ موجودہ سال کے دوران شرح ترقی کی رفتار مزید سست ہو کر صفر اعشاریہ سات کے مقام پر آ نے کا امکان ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ گزشتہ پینتالیس سالوں میں سب سے کم ہو گا۔ اِسی طرح تجارت کا حجم بھی گھٹ گیا ہے جو گزشتہ آٹھ سالوں میں سب سے کم ہے۔ عالمی بینک کے صدر کے نزدیک ابھی مزید رسک کا سامنا ہے۔

امریکی اقتصادیات کی بحالی کا عمل، بقول امریکی ماہرینِ اقتصادیات کے اگلے سال کے آخر تک ہو سکتا ہے۔ حالانکہ امریکی حکومت ارب ہا ارب ڈالر اِس مد میں مختص کر چکی ہے مگر صورت حال جوں کی توں ہے۔ شاید اِسی تناظر میں امریکی صدر باراک اوبامہ کو یقین ہے کہ اقتصادی ترقی کے اشارے اِس سال کے آخر میں ملنا شروع ہو جائیں گے۔ قسمت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ قسمت کی دیوی اوبامہ پر اِس معاملے میں بھی مہربان ہو جائے۔

Barack Obama und Timothy Geithner
امریکی صدر باراک اوباما اپنے وزیر خزانہ گائتھنر کے ہمراہتصویر: picture-alliance / dpa

جرمنی میں چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت اقتصادی بحران کی وجہ سے جمود کی شکار اکانومی کو تحریک دینے کی کوششوں میں ہے۔ خصوصی قانون سازی کی بھی وہ حمایت کرتی ہیں کہ اِس کے بغیر مالی اداروں اور منڈیوں پر نگرانی رکھنا ممکن نہیں ہو سکتا۔

فرانس کی حکومت نے گزشتہ ہفتے کے دوران یہ عندیہ دیا تھا کہ ڈوبتی اقتصادیات کے لئے مزید حکومتی اقدامات کا کوئی امکان نہیں لیکن صدر نکولا سارکوزی کے اہم مشر Henri Guaino کے خیال میں اقتصادی بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لئے حکومت کو اپنے خزانے کے منہ کو کھولنا ہوگا وگرنہ عام آدمی کی زندگی انتہائی پریشان ہو جائے گی۔ اندازوں کے مطابق فرانسیسی اقتصادیات کا حجم سالِ رواں میں مزید تین فی صد سکڑ سکتا ہے۔ اِس انداز میں دوسرے یورپی ملکوں میں لگائے گئے ہیں۔

بحران سے دوچار ملک بھی اب اقتصادی گراوٹ کا سامنا کرنے لگے ہیں۔ اِن میں ایک عراق ہے جس کے نائب صدر طارق الہاشمی کے خیال میں ملک کی اقتصادی ترقی کی راہ میں جہاں ورثے میں بے شمار مسائل ملے ہیں وہیں اب اقتصادی بحران سامنے آن کھڑا ہوا ہے جس نے خام تیل کی قیمتوں کو اوپر نیچے کر دیا ہے۔

USA Weltbank Finanzkrise Robert Zoellick
عالمی بینک کے صدر رابرٹ زوئلکتصویر: AP

مشرقی یورپ کے ملک ہنگری کے وزیر اعظم نے اقتصادی بحران کے گہرے ہونے کے احساس کو محسوس کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے حالانہ ہنگری میں اقتصادی بحران پچھلے بیس سالوں سے جاری ہے۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم کیون رَڈ اپنے دورہٴ امریکہ کے دوران صدر اوبامہ کے ساتھ عالمی کسادبازاری پر کھُل کر بات کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اُن کے مطابق انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ میں چین کو بہترمقام اور پلیٹ فارم دینا وقت کی ضرورت ہے۔ کیون رڈ کے خیال میں موجودہ اقتصادی بحران کے خاتمے کے لئے چینی اقتصادیات کا سہارا ضروری ہے۔ امکاناً اسی تناظر میں عالمی مالیاتی ادارہ ،کساد بازاری کی لپیٹ میں آئے ملکوں کے لئے ہنگامی امدادی فنڈ کے لئے چین سمیت خلیجی ملکوں سے کچھ زیادہ کی توقع رکھتا ہے۔

عالمی اقتصادی کسادبازاری کی آندھی اب افریقی براعظم کو بھی ہِٹ کرنے لگی ہے۔ افریقی ملک نائجیریا کے وزیر خزانہ منصور مطاہر کا کہنا ہے کہ اب تک تو کسادبازاری سے بچنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن آنے والے دن مشکلات سے بھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں تیل کی گرتی قیمتوں سے بجٹ خسارے میں اضافے کا امکان ہے۔ نائجیریا کی کرنسی نائرا کی قدر میں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جو ملکی امپورٹ کی ادائیگیوں میں عدم توازن کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے اشارے کچھ اور افریقی ملکوں سے بھی سامنے آ رہے ہیں جہاں اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہونا شروع ہو گئی ہے۔

عالمی منظر نامے پر اقوام کی نگاہیں دو اپریل کی لندن شیڈیول گروپ ٹونٹی کی سربراہ سمٹ ہے۔ اُس کے ممکنہ قیصلوں سے ہی عالمی اقتصادی ادارہ، اِس پوزیشن میں ہو گا کہ وہ دوسرے ملکوں کو اقتصادی بدحالی سے نکلنے کے لئے مالی معاونت اور مشاورت دے سکے۔ برطانیہ میں وزیر اعظم گورڈن براؤن کی حکومت جس انداز میں اقتصادی کساد بازاری سے نکلنے کی کوششوں میں ہے اُس کے اثرات عوام تک پہنچ رہے ہیں اور اِسی باعث تازہ رائے عامہ کے جائزوں میں براؤن حکومت کا گراف بلند ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو سن دو ہزار دس کے عام الیکشن کے لئے حوصلہ افزاء خیال کیا گیا ہے۔

G20-Finanzminister bereiten Gipfel vor Horsham
گروپ ٹونٹی کے وزرائے خزانہ، انگلینڈ کے شہر ہورشیم میٹنگ میںتصویر: AP

ماہرین کا کہنا ہے کہ گروپ ٹونٹی کی کانفرنس اقتصادی بحران کے حل میں پیش رفت کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ اگر اِس کے شرکاء عالمی اقتصادیات کی جگہ، اپنی اپنی ملکی اقتصادیات کے تناظر میں حل ڈھونڈنے نکلے تو یہ ناکامی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ اس کانفرنس سے اقوام کو بہت زیادہ توقعات وابیتہ ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اِس کا انجام سن اُنیس سو تیس کے بعد پیدا ہونے والے اقتصادی کساد بازاری یا اکنامک گریٹ ڈیپریشن کے دور کی کانفرنس جیسا نہیں ہو گا اور شرکاء انتہائی منطقی انداز میں لندن کانفرنس کے دوران معاملات کو دیکھے اور پرکھیں گے۔

سن اُنیس سو تینتیس میں بھی اقتصادی بحران کے تناظر لندن میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ چھہتر سال بعد پھر اُسی صورت حال میں اب ایک اور کانفرنس لندن میں ہونے والی ہے۔ اُنیس سو تینتیس کی کانفرنس میں چھیاسٹھ ملکوں کے مندوبین شریک ہوئے اور چھ ہفتوں تک بحث کرتے رہے مگر تمام بات چیت بے نتیجہ رہی ۔ امریکہ اور یورپ کسی مقام پر متفق ہونے میں ناکام ہوئے تھے۔ اُسی کانفرنس کے حوالے سے برطانوی وزیر خزانہ الیسٹئر ڈارلنگ نے گزشتہ ہفتے کے دوران کہا تھا کہ جو تب ہوا تھا اب ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔ گروپ ٹونٹی ایک بار پھر ایسے ہی دوراہے پر ہیں۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ یورپی اقوام اپنے حکومتی اخراجات میں اضافہ کریں تا کہ جمود کا شکار ہوتی اقتصادیات کو حرکت ملے مگر یورپ ابھی اِس کے لئے تیار نہیں ہے۔

آج پھر دنیا کو بے روزگاری اور سست رو اقتصادیات کا سامنا ہے اور یقیناً دو اپریل سن دو ہزار نو کی لندن شیڈیول کانفرنس کے شرکا عملی اور مثبت فیصلے کرنے میں کامیاب ہوں گے۔