1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عالمی امدادی ادارے افغان مہاجرین کو بھولتے جا رہے ہیں‘

فرید اللہ خان، پشاور19 اکتوبر 2015

اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی تمام تر توجہ شام، عراق اور دیگر عرب ممالک کے مہاجرین پر مرکوز ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GqSv
Schulen in Afghanistan
تصویر: DW/F. Khan

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے خیبر پختونخوا میں مقیم افغان مہاجرین کے اسکولوں کو فراہم کی جانے والی امداد کی بندش سے ہزاروں طلبا و طالبات اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اقوام متحدہ کے ادارے یو این سی ایچ آر کی مالی معاونت سے تین سو سے زیادہ اسکولوں میں بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی تھی تاہم اب ان اسکولوں کی مالی امداد بند کرنے کا کہا گیا ہے، جس کی وجہ ان میں گریڈ سات اور اٹھ کے طلبا و طالبات کی کلاسیں ختم کرنا پڑ رہی ہے۔ دارالحکومت پشاور میں ایسے اسکولوں کی تعداد ایک سو ستائس ہے، جبکہ اسلام آباد میں ان اسکولوں کی تعداد بارہ ہے۔

Schulen in Afghanistan
تصویر: DW/F. Khan

پشاور کے ان اسکولوں میں ہزاروں کی تعداد میں افغان بچے زیر تعلیم ہیں، جنہیں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کی وساطت سے مفت کتابیں اور یونیفارم فراہم کرتا ہے جبکہ ان اسکولوں کا ماہانہ خرچ اور کرایہ بھی اقوام متحدہ کا یہی ادارہ برداشت کرتا ہے۔ تاہم اب اس امداد میں تیزی سے کمی کی جا رہی ہے۔

جب اس سلسلے میں اف‍غان قونصلیٹ میں تعینات تعلیمی اُمور کے اتاشی احسان اللہ امینی سے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، ’’ ان اسکولوں میں بچوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی لیکن تین چار ماہ قبل یو این ایچ سی آر نے انہیں مزید امداد دینے سے معذرت ظاہر کی ہے، جس کی وجہ سے ان اسکولوں میں پڑھنے والے کلاس ہفتم اور ہشتم کے طلبا و طالبات کو خارج کرنا پڑا۔‘‘

تاہم ان کا مزید کہنا تھا، ’’افغان قونصیلٹ نے خیبرپختونخوا میں نجی افغان اسکولوں کے مالکان سے بات کی ہے اور اب یہ بچے وہاں داخل کرائے جائیں گے۔ یہ نجی اسکول ان بچوں سے نصف فیس وصول کریں گے۔‘‘

Schulen in Afghanistan
تصویر: DW/F. Khan

پشاور میں حیات آباد اور فقیر آباد سمیت کئی علاقوں میں نجی سطح پر بھی افغان اسکول قائم کے گئے ہیں تاہم ان اسکولوں کی بھاری فیسوں کی وجہ سے عام افغانی بچے ان میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ ایک افغان بچے کے والد محمد انور کا کہنا تھا، ’’ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ ہر ماہ ایک ہزار روپے بچے کی فیس کے طور پر دیں اور پھر ان کے لیے کتابیں اور یونیفارم بھی خریدیں۔‘‘

پشاور کے یونیورسٹی روڈ پر واقع افغان اسکول کے طالب علم عبدالبصیر کا کہنا تھا، ’’ہمارے والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہم دو بھائی یہاں پڑ رہے تھے لیکن اب مجھے اپنا تعلیمی سلسلہ ختم کرنا پڑے گا۔ میرے والد فروٹ کا کاروبار کرتے ہیں، جس کی آمدنی سے مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ اب میں کوئی کام کروں گا اور پرائیویٹ طور پر امتحان دوں گا۔‘‘

خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں میں افغان طالب علموں کو مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے تاہم افغان تعلیمی نصاب کی وجہ سے افغان بچے اپنے اسکولوں میں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پندرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں جبکہ دس لاکھ سے زیادہ افغان غیر رجسٹرڈ ہیں، جن کے ہزاروں بچے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔