1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی سائبر حملہ، معاملہ وائٹ ہاؤس تک

William Yang/ بینش جاوید RT
14 مئی 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز دنیا بھر میں ہونے والے سائبر حملے کے بعد ہوم سکیورٹی ایڈوائرز ٹام بوزرٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ اس معاملے پر ایک ایمرجنسی میٹنگ کریں۔

https://p.dw.com/p/2cxGA
Weißes Haus in Washington
تصویر: imago

خبر رساں ادارے روئٹرز کو یہ بات اوباما انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتائی ہے۔ اس اہلکار کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم کے بعد ٹام بوزرٹ نے جمعے کی شب متعلقہ حکام کے ساتھ ایک ایمرجنسی میٹنگ منعقد کی جس میں عالمی سطح پر کیے جانے والے کمپیوٹر سائبر حملے ’رین سم ویئر‘ کے سبب پیدا ہونے والے خطرات پر غور وخوض کیا گیا۔ اس حملے کا نشانہ دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں عام لوگوں کے علاوہ بڑی بڑی کمپنیوں اور معروف اداروں کے کمپیوٹرز بھی بنے۔

USA Präsident Donald Trump im Weißen Haus
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے بعد ٹام بوزرٹ نے جمعے کی شب متعلقہ حکام کے ساتھ ایک ایمرجنسی میٹنگ کیتصویر: Reuters/K. Lamarque

روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اس سینیئر اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ امریکی سکیورٹی کے ذمہ دار سینیئر حکام نے ہفتے کے روز وائٹ ہاؤس کے ’’سیچوئشن روم‘‘ میں ایک اور میٹنگ بھی کی جس میں ایف بھی آئی اور این ایس اے کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔ یہ دونوں ادارے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ عالمی سطح پر کیے جانے والے اس سائبر حملے کے ذمہ داروں کا جلد سے جلد پتہ لگایا جائے۔

سائبر حملے کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے، یورو پول

یورپی یونین کی پولیس ایجنسی، یوروپول نے کہا ہے کہ جمعے کے روز ہونے والے سائبر حملے کے سبب دو لاکھ سے زائد ادارے اور افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اس ایجنسی کی طرف سے آج اتوار 14 مئی کو خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کل پیر کے روز جب لوگ واپس اپنے کام پر پہنچیں گے تو یہ صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے اور متاثر ہونے والے لوگوں اور اداروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ILLUSTRATION Trojaner Locky Ransom-Ware
سائبر حملے سے متاثر ہونے والوں میں بڑے بڑے نامور ادارے اور کمپنیاں شامل ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/S. Stache

یورو پول کا کہنا تھا کہ اس حملے کی عالمی سطح پر رسائی بے مثال ہے۔ متاثر ہونے والوں میں بڑے بڑے نامور ادارے اور کمپنیاں شامل ہیں۔ اس سائبر حملے کو ایک بڑا خطرہ قرار دے دیا گیا ہے۔