1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عبدالاحد جان، کشمیری علیحدگی پسندوں کا نیا ’ہیرو‘

16 اگست 2010

بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر جموں کشمیرکے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ پر جوتا پھینکنے والے پولیس اہلکار کو ایک ’ہیرو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لوگوں نے عبدالاحد جان نامی اس شخص کے گاؤں کا رخ کیا اور گھر والوں کو مبارکباد دی۔

https://p.dw.com/p/Ooar
تصویر: AP

15 اگست کے روز بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیرکے وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ پر جوتا پھینکنے والا عبدالاحد جان سری نگر سے 40 کلومیٹر شمال کی جانب ’آجس‘ نامی گاؤں کا رہائشی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق وادی کے مختلف علاقوں سے لوگوں نے احد جان کے گھر کے سامنے جمع ہو کر نعرے بازی کی، خواتین نے احد جان کی اہلیہ بیگم جان پر پھولوں کی بارش کی اوراسے گلے لگایا۔ مردوں نے ڈھول بجا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ٹھیکے دار معراج الدین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ٹیلیفون پر بتایا کہ احد جان کا ’’عمل نا قابل یقین ہے اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ یہ اس غصے کا اظہار ہے، جو ہرکشمیری میں موجود ہے۔‘‘

بھارت کے تمام اہم اخبارات نے یوم آزادی کے موقع پر ہونے والے اس واقعے کو رپورٹ کیا اور زیادہ تر افراد نے تو اسے براہ راست ٹیلی وژن پر بھی دیکھا۔ احد جان نے نہ صرف جوتا پھنیکا بلکہ آزادی کا نعرہ بھی بلند کیا۔ ساتھ ہی اس نے کشمیرمیں علٰیحدگی پسندوں کا سیاہ رنگ کا پرچم بھی لہرایا۔ اس واقعے کے بعد عمرعبداللہ کے محافظین نے اس پولیس اہلکارکو اپنے قابومیں لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کےحوالے کر دیا۔ سری نگر پولیس نے کہا کہ عبدالاحد جان مجرمانہ سرگرمیوں کے الزام میں حراست میں بھی رہ چکا ہے اور اسے کچھ ہی عرصہ پہلے ضمانت پر رہا کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ یہ چھان بین بھی کی جا رہی ہے کہ یہ ملزم وی آئی پی گیلری تک کیسے پہنچا۔

Kashmiri Politischer Führer und Chef von National Konferenz, Omar Abdullah vor seine Rede an Parteianhänger in Srinagar on 20.03.06
’’شکر ہے اس نوجوان نے جوتا پھینکا ہے، پتھر نہیں" عمر عبداللہتصویر: DW

دنیا بھر میں کسی شخص کو جوتا دکھانا یا اس کی طرف جوتا پھینکنا شدید تذلیل سمجھا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ جنوبی ایشیا میں سیاستدانوں پر جوتے پھینکنا اب ایک روایت بنتی جا رہی ہے۔ خاص طورپر بھارت میں جوتوں کے ذریعے احتجاج کا طریقہ روز بروز مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت میں گزشتہ انتخابات کے موقع پراحمد آباد میں ایک ریلی کے دوران ایک اکیس سالہ نوجوان نے وزیراعظم من موہن سنگھ پر جوتا پھینکا تھا۔ اسی طرح ایک محفل میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار ایل کے ایڈوانی پر چپل اچھالی گئی تھی جبکہ اس سے قبل ایڈوانی کو جوتے سے بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی ان حملوں سے نہ بچ سکے۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سکھ صحافی نے ان کی جانب جوتا اچھال کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ بھارت کے زیرانتظام جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس واقعے کے بعد کہا تھا کہ انہیں اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔’’شکر ہے اس نوجوان نے جوتا پھینکا ہے، پتھر نہیں۔‘‘

کسی پر جوتا پھینکنے کو تذلیل کرنا ہی نہیں بلکہ احتجاج کا ایک طریقہ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انتہائی محرومی اور پریشانی کے علاوہ تذبذب کی صورتحال بھی لوگوں کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ تاہم گزشتہ دنوں کے دوران دنیا بھر میں سیاستدانوں پر’جوتا باری‘ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

عبدالاحد جان فی الحال پولیس کی حراست میں رہے گا اور پولیس جلد ہی اس کے دماغی توازن کی درستگی کے بارے میں رپورٹ جاری کرے گی۔ پولیس نےدعویٰ کیا کہ احد جان کا دماغی توازن درست نہیں ہے۔ تاہم اس کےگھر والوں نے پولیس کے اس دعوے کو مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ وادی میں ہونے والی حالیہ ہلاکتوں نے احد جان کو بہت پریشان کر رکھا تھا۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں