عدالت نے لے پالک مسلم بیٹی کے مذہب کی تبدیلی روک دی
7 مئی 2016جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ہَمّ (Hamm) سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق عدالت نے اس مقدمے میں حکم سنایا کہ بات اگر کسی لے پالک بچے کے مذہب کی تبدیلی یا تعین کی ہو، تو اس کے لیے منہ بولے والدین کی خواہش ہی واحد اہم رائے نہیں ہو گی بلکہ فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ ایسے کسی بچے کے حقیقی والدین کیا چاہتے ہیں؟
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ Hamm کی ایک اعلیٰ صوبائی عدالت نے اپنے اس فیصلے کی تفصیلات جمعہ چھ مئی کو جاری کیں۔ یہ مقدمہ ایک مسلمان لڑکی کو گود لینے والے والدین اور اس بچی کی سگی ماں کے درمیان تھا۔
بچی کو گود لینے والے منہ بولے والدین کیتھولک عقیدے کے حامل مسیحی شہری ہیں جبکہ اس کے سگے والدین مسلمان ہیں۔ فریقین کے مابین تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب منہ بولے والدین اس بچی کا مذہب تبدیل کروا کے اس کی تربیت ایک کرسچن کے طور پر کرنا چاہتے تھے اور ان کا ارادہ تھا کہ لڑکی کو مسیحی عقیدے کے مطابق بپتسمہ بھی دلایا جائے۔
دوسری طرف بچی کی سگی والدہ نے خود کو حاصل اپنی اس اولاد کی پرورش کا قانونی حق ترک کر دینے سے پہلے ہی یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس کی بیٹی کی پرورش مسلم عقیدے کے مطابق کی جائے۔ عدالت نے مذہبی نوعیت کے اس قانونی تنازعے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کسی خاندان میں بچوں کی مذہبی پرورش کس طرح کی جانی چاہیے، یہ جملہ معاملات متعلقہ قانونی ضوابط میں پہلے سے طے ہیں۔
ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ منہ بولے والدین گود لیے جانے والے کسی بچے یا بچی کا مذہب اس کے حقیقی والدین کی مرضی کے برعکس تبدیل نہیں کروا سکتے۔ عدالت نے کہا، ’’اس مقدمے میں بچی کو گود لینے والے والدین کو بچی کو جنم دینے والی ماں کی خواہش کا احترام کرنا ہو گا۔‘‘
اسی لیے اس صوبائی عدالت نے کچھ عرصے پہلے ایک ذیلی عدالت کی طرف سے دیا جانے والا وہ اجازت نامہ بھی منسوخ کر دیا، جس کے تحت منہ بولے والدین کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی گود لی گئی بیٹی کا مذیب تبدیل کرا کر اسی کی تربیت مسلمان کی بجائے کرسچن کے طور پر کر سکتے تھے۔