1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی جنگ میں برطانوی شمولیت کی تحقیقات

مقبول ملک / ادارت :عابد حسین16 جون 2009

عراق میں امریکی فوج کشی کے بعد برطانیہ نے بھی اپنی فوج روانہ کی تھی۔ برطانوی فوجوں کامکمل انخلا اِس سال کے وسط میں مکمل ہو جائے گا۔ اب وزیر اعظم براؤن نےعراقی جنگ میں شمولیت کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/IANO
برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن

برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے بالآخر یہ ا علان کردیا ہے کہ ان کی حکومت اس بارے میں باقاعدہ چھان بین کرائے گی کہ چھ سال قبل عراق کے خلاف امریکی سربراہی میں فوجی کارروائی کے وقت برطانیہ نے اس جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کن حالات میں کیا تھا۔

اس سلسلے میں گورڈن براؤن نے لندن میں کل پیر کی شام جو اعلان کیا اس کا برطانیہ میں جنگ مخالف حلقے ایک طویل عرصے سے انتظار کر رہے تھے۔ لیکن لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے برطانوی وزیر اعظم کی طرف سے اس اعلان کے بعد ان کے ناقدین نے الزام یہ لگایا کہ گورڈن براؤن ابھی بھی اصل حقائق مکمل طور پر سامنے لانے سے گریز کررہے ہیں اور اسی لئے انہوں نے یہ تحقیقات نجی اور غیر عوامی سطح پر کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

Die Briten übergeben Basra an die Iraker
سن دو ہزار سات کے آخر میں بصرہ کا انتظام سنبھالنے کی یاداشت پر دستخط کرنے والے اعلیٰ عراقی فوجی افسر محمد الولی اور برطانوی میجر جنرل Graham Binnsتصویر: AP

اب تک براؤن اور ماضی میں ان کے لیبر پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والے پیش رو ٹونی بلیئر نہ صرف برطانیہ کی گذشتہ عراقی جنگ میں شمولیت سے متعلق حالات و واقعات کی چھان بین کروانے سے گریز کرتے رہے تھے بلکہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ تحقیقات اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ برطانوی فوجی دستے عراق میں موجود ہیں۔

اب جبکہ عراق سے برطانیہ کے 500 کے سوا باقی تمام فوجی وہاں سے رخصت ہوچکے ہیں، گورڈن براؤن نے لندن میں ملکی پارلیمان کو بتایا کہ اب وہ مناسب وقت آگیا ہے کہ عراق میں گذشتہ چھ برس کے دوران اکثر متنازعہ ثابت ہونے والے حالات وواقعات اور ان سے سیکھے جانے والے سبق کے حوالے سے تفصیلات کا پتہ لگایا جاسکے۔

لندن میں سیاسی تجزیہ نگاروں اور سرکردہ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ گورڈن براؤن نے عراقی جنگ میں برطانوی شمولیت کے فیصلے کی چھان بین سے متعلق جو فیصلہ کیا ہے، اس کے ذریعے وہ دو مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک تو براؤن اپنی ہی پارٹی میں بائیں بازو کے اس دھڑے کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں جو جنگ مخالف رہا ہے، اور دوسرے وہ روایتی طور پر لیبر پارٹی کو ووٹ دینے والے ان شہریوں کی حمایت بھی دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے حالیہ یورپی پارلیمانی الیکشن میں لیبر پارٹی کو ووٹ نہیں دئے۔

Irak Basra irakische Soldaten übernehmen Stützpunkt der Briten
بصرہ پیلس کمپلیکس سے برطانوی فوجیوں کے انخلاء کے بعد لہرایا جانے والا عراقی پرچمتصویر: AP

لیکن کیا ایسے کسی تحقیقاتی عمل کے کوئی بڑے نتائج نکل سکیں گے۔ اس بارے میں بہت سے حلقے شبہات کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ اول تو اس چھان بین کے دوران کوئی بھی سماعت عوامی سطح پر نہیں کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ قومی سلامتی سے متعلق خدشات کا نام لے کر چھان بین کرنے والے ماہرین کو اعلیٰ سرکاری ملازمین اور تعلیمی اور تحقیقی ماہرین کے ایک گروپ تک محدود کردیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ عمل ایک سال تک مکمل ہو سکے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس چھان بین کے نتائج اگلے عام انتخابات کے بعد سامنے آ سکیں گے، اور یوں براؤن حکومت اس چھان بین کے نتیجے میں کسی بھی ممکنہ سیاسی نقصان سے محفوظ رہے گی۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر چھان بین سے متعلق گورڈن براؤن کا فیصلہ کتنا بڑا ہے۔ اس بارے میں لندن کی پارلیمان میں اپوزیشن کی لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ Nick Clegg کہتے ہیں کہ لیبر پارٹی کی طرف سے کئی سالہ تاخیر کے بعد بھی یہ چھان بین خفیہ انداز میں کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ عراق میں برطانوی فوجی مداخلت، گذشتہ کئی نسلوں سے برطانوی خارجہ پالیسی میں کی جانے والی سب سے بڑی غلطی ہے۔