1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی کُردوں کو اسلحے کی فراہمی روکی جائے، جرمن ماہرین

امتیاز احمد7 جون 2016

سن دو ہزار سولہ کی امن رپورٹ میں عرب ممالک کے حوالے سے جرمنی کی خارجہ پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کُرد جنگجوؤں یا پیش مرگہ کو ہتھیاروں کی فراہمی کی خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1J24D
Militärische Ausbildung für Kurden in Deutschland
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Sohn

جرمنی میں امن پر تحقیق کرنے والے اداروں نے عراقی کردوں کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن میں امن رپورٹ دو ہزار سولہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کُردوں کو ہتھیار فراہم کرنے کی پالیسی خطروں سے خالی نہیں ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق یہ خطرہ بدستور موجود ہے کہ فراہم کیے جانے والے جرمن ہتھیاروں کو آگے فروخت کیا جا سکتا ہے اور اس اقدام سے عراق میں اندرونی طاقت کی جنگ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

جرمن حکومت نے سن دو ہزار چودہ میں کُردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اس کا مقصد کردوں کی داعش کے خلاف لڑائی میں انہیں مدد فراہم کرنا تھا۔

Ursula von der Leyen bei Erbil 12.01.2015
تصویر: Reuters/M. Gambarini

اس رپورٹ میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی پر بھی پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کو خطے میں ’’استحکام کی علامت‘‘ کے طور پر سمجھنا ایک ’’غلط فہمی‘‘ ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ سعودی عرب اس خطے میں ایران کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور ان دونوں ملکوں کی کارروائیاں یمن اور شام کو عدم استحکام کا شکار بنائے ہوئے ہیں۔

اس رپورٹ میں جرمن فوج کی شام کے تنازعے میں شمولیت اور داعش کے خلاف کارروائیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ جرمنی نے داعش کے خلاف بننے والے اتحاد میں شامل ہو کر اصولی طور پر غلطی کی ہے۔ رپورٹ میں مشورہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جرمنی کو اس اتحاد میں شمولیت کی بجائے اقوام متحدہ کے امن مشن کو ’’مضبوط‘‘ بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے تھا۔ جرمن حکومت کو یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ اسے تیونس جیسے ملک کے لیے اپنی امداد میں اضافہ کر دینا چاہیے کیوں کہ اس ملک کو اندرونی سلامتی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مدد درکار ہے اور داعش جیسی تنظیموں کو فوجی نہیں بلکہ سیاسی سطح پر شکست دینے کی ضرورت ہے۔

جرمنی میں امن رپورٹ سالانہ بنیادوں پر سن انیس سو ستاسی سے جاری ہو رہی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں جرمنی کے متعدد تحقیقی ادارے مل کر کام کرتے ہیں۔