1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق اور سعودی عرب کے تعلقات میں گرمجوشی، وجہ کیا ہے؟

22 اکتوبر 2017

تقریبا ستائیس برس کی کشیدگی کے بعد ریاض اور بغداد کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوئی ہے۔ امریکا کو امید ہے کہ اس طرح علاقائی سطح پر ایران کے اثرو رسوخ کو کم کیا جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2mK2x
Saudi-Arabien Treffen von König Salman mit  irakischer Ministerpräsident Haider Al-Abadi
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Saudi Press Agency

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی موجودگی میں عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی اور سعودی شاہ سلمان نے جوائنٹ کوآرڈینیشن کونسل کی بنیاد رکھی ہے۔ دو طرفہ تعاون کی اس کونسل کے ذریعے دونوں ملک مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں موجود امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے اس پیش رفت کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مشترکہ تعاون کونسل نہ صرف داعش کے خلاف جنگ بلکہ آزاد کرائے گئے علاقوں کی تعمیر نو میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا، ’’ہم اس پیش رفت کے حوالے سے شکر گزار ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح یہ خطہ مزید مستحکم ہوگا۔

عراق اور سعودی عرب میں قربت سے ایران پر کیا اثر پڑے گا؟

عراق کے اپنے ہمسایہ شیعہ ملک ایران سے قریبی تعلقات ہیں اور اس وقت عراق میں لڑنے والے متعدد شیعہ ملیشیا گروپوں پر ایران کا اثرو رسوخ ہے۔ اب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے مطالبہ کیا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروہ عراق سے نکل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ اب ختم ہونے کو ہے، اس لیے ایسے جنگجو گروہوں کو اب عراق سے نکل جانا چاہیے۔ ریاض میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے مزید کہا کہ تمام غیر ملکی جنگجوؤں کو اب عراق چھوڑ دینا چاہیے۔

Saudi-Arabien Besuch Rex Tillerson bei König Salman
ریکس ٹلرسن نے سعودی شاہ سلمان سے خصوصی ملاقات کرتے ہوئے خطے میں ایران کا اثرو رسوخ کم کرنے کے حوالے سے بات چیت کی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Brandon

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف سخت پالسیاں اپنانے کی راہ پر گامزن ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق ریکس ٹلرسن نے سعودی شاہ سلمان سے خصوصی ملاقات کرتے ہوئے خطے میں ایران کا اثرو رسوخ کم کرنے کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔

سعودی عرب عراق مشترکہ تعاون کونسل کے قیام کے حوالے سے آج ریاض میں گفتگو کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا، ’’ہمیں امید ہے کہ اس سے عراق کے اندر ایران کے منفی اثر و رسوخ کا کسی حد تک مقابلہ کیا جا سکے گا۔‘‘

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق عراق کی سرحدوں کو خطے میں مستقبل کی نسلی اور مذہبی تشکیل کے حوالے سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ سن انیس سو نوے میں سابق عراقی صدر کے کویت پر حملے کے بعد بغداد اور ریاض میں تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے لیکن اب ان میں بہتری لانے کی کوششیں جاری ہیں۔

یہ ان کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ سن دو ہزار پندرہ میں سعودی عرب نے عراق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھا اور رواں برس کے آغاز پر اس ملک سے متصل اپنی سرحد بھی کھول دی تھی۔ دوسری جانب عراق میں دن بدن بڑھتا ہوا ایرانی اثر و رسوخ نہ صرف سعودی عرب بلکہ امریکا کو بھی ناپسند ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی صدر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مک ماسٹر کا کہنا تھا، ’’صدر ٹرمپ ایک مستحکم عراق دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ کہ اسے ایران سے منسلک نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس میں سعودی عرب اہم اور وسیع کردار ادا کر سکتا ہے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا یہ بھی خدشہ ہے کہ ایسا کرنے سے عراق مزید خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے جیسا کہ عراق میں فوجی مداخلت کے بعد ہوا تھا اور داعش جیسی تنظیم وجود میں آ گئی تھی۔