1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق سے برطانوی فوج کے باقاعدہ انخلاء کا آغاز

31 مارچ 2009

برطانیہ نے منگل کے روز عراق سے اپنے باقاعدہ فوجی انخلاء کا آغاز کردیا اور یوں وہاں برطانوی فوجی کارروائیوں کے چھ سالہ دور کا اختتام بھی اب زیادہ دور نہیں ہے جو اس سال جولائی تک مکمل ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/HNqc
بصرہ میں فرائض انجام دینے والے برطانوی فوجیتصویر: picture-alliance / dpa

عراق میں برطانوی فوجی کارروائیوں کا آغاز 2003 میں امریکہ کی سربراہی میں مشرق وسطیٰ کے اس ملک میں اس فوجی مداخلت کے ساتھ شروع ہوا تھا جس کا مقصد صدام حسین کو اقتدار سے علیحدہ کرنا تھا۔ عراق سے برطانوی فوجی انخلاء کے باضابطہ عمل کا آغاز بصرہ میں ہونے والی ایک فوجی تقریب میں برطانوی پرچم سرنگوں کئے جانے سے ہوا۔

یہ انخلاء کئی ماہ کے عرصے میں متعدد مرحلوں میں مکمل ہوگا۔ جنگ سے تباہ حال اور داخلی بدامنی اور خونریز حملوں سے بری طرح متاثر اس ملک کے جنوب میں ابھی تک موجود تمام 4100 برطانوی فوجی اس سال جولائی کے آخر تک وہاں سے واپس چلے جائیں گے۔

بصرہ میں ہونے والی فوجی تقریب میں اس شہر کا کنٹرول باقاعدہ طور پر امریکی دستوں کے حوالے کردیا گیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں عراق میں امریکی فوجی د ستوں کے اعلیٰ کمانڈر جنرل Ray Odierno نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ دو قوموں کے طور پر آپس میں اس خون کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں جو انہوں نے اکٹھے بہایا ہے اور جن کو کوئی بھی نہیں توڑ سکتا۔

US-General Ray Odierno übernimmt Kommando im Irak
عراق میں امریکی فوجوں کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل Odiernoتصویر: AP

جنرل Odierno نے کہا: "ہمارا یہ رشتہ کئی نسلوں سے قائم ہے اور ہم جنگ میں یا جبر کے خلاف ہمیشہ اکٹھے ہی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ عمل تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں استحکام کا سبب بنا ہے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے امریکہ اور برطانیہ کے ایک دوسرے کے ساتھ خلوص کے اسی رشتے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'آپ کی کامیابی ہماری کامیابی ہوگی اور آپ کے مسائل ہمارے مسائل ہو‌ں گے۔ جب آپ اپنے دوستوں کو تلاش کریں گے تو ہمیں وہیں پائیں گے۔' یہ بات عراق سے زیادہ بہتر طور پر کسی اور جگہ سچ ثابت نہیں ہو سکی۔"

اس تقریب کے اختتام پر بصرہ میں اتحادی فوج کے ہیڈکوارٹر پر برطانوی کی بجائے امریکی پرچم لہرا دیا گیا اور بعد ازاں عراق میں برطانوی دستوں کے کمانڈر میجر جنرل اینڈی سامن نے کہا کہ عراق میں برطانوی فوجی مشن بڑے زیر و بم سے گذرا ہے لیکن وہاں سے برطانوی فوجی سر بلندی کے ساتھ رخصت ہو رہے ہیں۔ میجرجنرل سامن نے کہا: "میری رائے میں ہم اپنے ہاتھ اپنے دلوں پر رکھتے ہوئے اور سربلندی کے ساتھ عراق سے رخصت ہوں گے۔ ہمیں ہر اس کامیابی پر فخر ہے جو ہمارے فوجیوں نے یہاں حاصل کی۔"

صدام دور میں عراق پر امریکہ کی سربراہی میں اتحادی دستوں کی فوجی مداخلت کے بعد سے آج تک وہاں برطانوی فوجیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 45 ہزاربھی رہی تھی جن میں سے اس وقت بھی وہاں موجود برطانوی دستوں کی تعداد 4100 بنتی ہے۔

2003 میں فوجی مداخلت کے بعد سے آج تک وہاں برطانیہ کے کل 179 فوجی ہلاک ہوئے جن میں سے باقاعدہ جنگی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد بہت کم رہی تھی۔ عراق میں زیادہ تر برطانوی فوجی باقاعدہ جنگ کے خاتمے کے بعد وہاں ہونے والے عسکریت پسندوں کے مسلح حملوں اور بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے۔