1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں انتخابات کا انعقاد خطرے میں

25 نومبر 2009

عراق میں آئندہ سال کے عام انتخابات شیڈول کے مطابق منعقد ہونے کے امکانات اب بہت کم نظر آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Kg72
تصویر: AP / DW

عراقی نائب صدر طارق الہاشمی کی طرف سے انتخابات سے متعلق ایک متنازعہ بل کو ویٹو کر دینے کے بعد الیکشن کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے تاہم امریکہ کو امید ہے کہ مسئلہ جلد ہی حل ہو جائے گا۔

Irak Vizepräsident Tariq Al-Hashimi
عراقی نائب صدر طارق الہاشمی نئے انتخابی قانون کو ویٹو کر دیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

نائب صدر طارق الہاشمی نے پارلیمان سے منظور شدہ ایک ایسے قانونی مسودے کو ویٹو کر دیا، جس میں ملک کے اندر موجود مختلف فرقوں کی پارلیمان میں نمائندگی کی شرح کے حوالے سے بعض تبدیلیاں درج تھیں۔ الہاشمی نے ان ترامیم کو نہ صرف ’’غیر آئینی بلکہ غیر منصفانہ‘‘ بھی قرار دیا۔ اُن کے ویٹو کے بعد اس قانونی مسودے میں مزید ترامیم کی گئیں اور عراق کے خودمختار کرُد علاقے کے لئے پارلیمانی نشستوں میں اضافہ جبکہ سنی عرب علاقوں کی سیٹوں کی شرح میں کمی کر دی گئی۔

نائب صدر الہاشمی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تازہ ڈرافٹ ’’مزید خطرناک‘‘ ہے اور اس سے ملک کے سیاسی عمل پر ’’منفی نتائج اور اثرات‘‘ مرتب ہوں گے۔

Christopher Hill USA Nordkorea Atomprogramm
عراق میں متعین امریکمی سفیر کرسٹوفر ہلتصویر: AP

عراقی صدارتی کونسل تین اراکین پر مشتمل ہے۔ اس میں صدر جلال طالبانی اور نائب صدور طارق الہاشمی اور عبدل مہدی شامل ہیں۔ طالبانی حود ایک کرد ہیں، نائب صدر ہاشمی سنی عرب جبکہ مہدی شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

صدر جلال طالبانی نے ترمیم شدہ مسودے کو نہ صرف ’’عوام کی امنگوں اور خواہشات کا ترجمان‘‘ قرار دیا بلکہ یہاں تک بھی کہہ دیا کہ اس سے ملک میں’’جمہوریت کی جڑیں مزید مضبوط‘‘ ہو جائیں گی۔ صدارتی کونسل میں اگر ایک بھی رکن نے بل کو ویٹو کر دیا تو اسے واپس پارلیمان میں بھیجا جائے گا۔

عراقی آئین کے مطابق اس مسودے کے دوسری مرتبہ ویٹو ہونے کی صورت میں اسے ساٹھ فی صد پارلیمانی اکثریت سے منظور کیا جا سکتا ہے۔ عراقی پارلیمان 275 نشستوں پر مشتمل ہے اور اس میں شیعہ اور کرد اراکین کو اکثریت حاصل ہے۔

پارلیمنٹ کی قانونی کمیٹی کے چیئرمین باہا الاراجی نے بتایا کہ ایسا قوی امکان موجود ہے کہ انتخابات وقت پر منعقد نہیں ہو سکیں گے کیونکہ توقع یہی ہے کہ نائب صدر الہاشمی نئے مسودے کو بھی ویٹو کر دیں گے۔

دوسری جانب امریکہ نے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے حوالے سے عراقی سیاست دانوں پر دباوٴ میں اضافہ کر دیا ہے۔ واشنگٹن حکومت چاہتی ہے کہ عراق میں وقت پر انتخابات منعقد ہوں تاکہ وہ وہاں سے اپنے فوجیوں کا مکمل انخلاء پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہی کر سکے۔

عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی سفیر کرسٹوفر ہل نے بتایا کہ عراق میں انتخابات میں تھوڑی بہت تاخیر تو ٹھیک ہے لیکن امریکہ یہ ہرگز نہیں چاہے گا کہ یہ بہت زیادہ ہو۔

عراق پر سن 2003ء میں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے حملے کے بعد سے اگلے سال کے مجوزہ انتخابات دوسرے ہوں گے۔ یہ انتخابات جنوری میں ہونا طے تھے تاہم نئے قانونی مسودے کے تنازعے کے باعث اب اس پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ قانونی پیچیدگیوں اور مسائل کو حل کرنے کے لئے واشنگٹن حکومت عراق کی ہر ممکن مدد اور بہت سارے ’’آئیڈیاز‘‘ فراہم کرے گی تاہم انہوں نے اس سلسلے میں تفصیلات نہیں دیں۔

دریں اثناء واشنگٹن میں امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ وہ اگلے چند روز کے اندر اندر افغانستان سے متعلق نئی حکمت عملی کا اعلان کر دیں گے۔ اس وقت عراق میں ایک لاکھ پندرہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جبکہ افغانستان میں اس کے اڑسٹھ ہزار فوجی اہلکار تعینات ہیں، جن میں چونتیس ہزار کے اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ : گوہر نذیر گیلانی

ادارت : امجد علی