1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کا خطرہ

10 جولائی 2006

عراقی دارلحکومت بغداد میں اتحادی اور مقامی افواج کے سیکیورٹی crackdown کے باوجود گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پُرتشدد کارروائیوں میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِن حملوں اور انتقامی حملوں نے نہ صرف عراقی فوج اور پولیس کی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے بلکہ وزیرِ اعظم نوری المالکی کی مصالحتی کوششیں بھی بظاہر ناکام ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ عراق میں شیعہ اور سُنی مسجدوں پر حملے، مذہبی وابستگی کی بنیاد پ

https://p.dw.com/p/DYKs
عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی
عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکیتصویر: AP

� شہریوں کو چُن چُن کر ہلاک کرنے اور لاقانونیت کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو عراق سے امریکی فوج کے انخلاء میں بھی مذید تاخیر ہو سکتی ہے۔ تو کیا عراق ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کے دہانے تک پہنچ گیا ہے؟

عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی نے ملکی بقا کے لئے ایک مرتبہ پھر تمام گروپوں سے امن اور اتحاد کی اپیل کی ہے۔ لیکن کئی شیعہ ملیشیا گروپ ایسے ہیں جنھیں وزیرِ اعظم المالکی کی شیعہ جماعت سمیت موجودہ حکومت کے کئی سرکردہ ارکان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے ملیشیا گروپ نے 9 جولائی کو 60 سُنی باشندوں کے قتلِ عام میں ملوث ہونے کے الزامات مسترد کرتے ہوئے اُس کی زمہ داری مغربی مفاد پرستوں پر عائد کی ہے اور کہا ہے کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عراق میں نسلی فسادات کو ہوا دینے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ بعض اہم سُنی سیاستدانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ عراق کو منقسم کرنے کے لئے باقاعدہ کسی سازش کے تحت کام کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب عراقی پارلیمان میں سُنی جماعتوں کی حزب نے اقوامِ متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ نسلی فسادات پر قابو پانے کے لئے دیگر عرب اور اسلامی ملکوں کی افواج پر مشتمل اپنے امن دستے عراق بھیجے۔ تاہم اقوامِ متحدہ کی طرف سے اِس اپیل پر ابھی تک کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ سُنی جماعتوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ عراقی پولیس میں سُنی اقلیت کی تعداد بڑھائی جائے اور تمام نگران چوکیوں پر شیعہ اور سُنی فرقوں کے اہلکاروں کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔ سُنی حزب کے لیڈر عدنان الدلیمی نے مذہبی قائدین پر زور دیا ہے کہ وہ شیعاﺅں اور سُنیوں کے درمیان اِس وسیع تر ہوتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لئے فعال اور مثبت اقدامات کریں۔

اگرچہ شیعہ رہنماﺅں نے سُنیوں کے خلاف پُر تشدد کارروائیں کی مذمت کی ہے لیکن اُن میں سے اکثر کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں سُنی باغیوں کے حملوں کے جواب میں شیعہ ردِ عمل نہ گُزیر ہے۔ شیعہ ملیشیا گروپوں کے حکومتی جماعتوں سے روابط تو ایک مسئلہ ہے ہی لیکن اب عام شیعہ باشندوں کو انتقامی کارروائیوں سے روکنا اُس سے بھی بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ عراق میں لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے ہتھیار اِن دنوں بہ آسانی مل جاتے ہیں اور اُن کی نگرانی کا کوئی نظام بھی موجود نہیں ہے۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ جب ایک قومی یکجہتی کی بنیاد پر قائم حکومت اُن کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو پھر اِس کام کے لئے اُنھیں یا تو ملیشیا گروپوں پر بھروسہ کرنا ہو گا یا پھر خود ہی ہتھیار اُٹھانے ہوں گے۔