1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں گذشتہ اختتامِ ہفتہ کے خونریز واقعات

8 مئی 2006

اِس اختتامِ ہفتہ پر عراق بھر میں تقریباً پچاس انسان مارے گئے۔ اتوار کا دِن کئی ہفتوں کے بعد کا خونریز ترین دن تھا، جب تشدد کا سب سے بڑا واقعہ کربلا شہرکے مرکزی بس اسٹیشن کے قریب پیش آیا۔ وہاں ایک کار بم دھماکے میں 21 افراد ہلاک اور 52 زخمی ہوئے۔

https://p.dw.com/p/DYLR
بصرہ میں اِس سال فروری میں برطانوی اَفواج کے خلاف ہونے والا مظاہرہ
بصرہ میں اِس سال فروری میں برطانوی اَفواج کے خلاف ہونے والا مظاہرہتصویر: AP

دیگر ہلاکتیں دارالحکومت بغداد میں پھٹنے والے دو کار بم حملوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ اِس سے پہلے ہفتے کے روز جنوبی عراقی شہر بصرہ میں غالباً ایک راکٹ کی زَد میں آ کر ایک برطانوی ہیلی کاپٹر کے ایک رہائشی علاقے پر گر کر تباہ ہو جانے کے بعد پُر تشدد ہنگامے شروع ہو گئے، جن میں دو بچوں سمیت کم از کم پانچ عراقی شہری مارے گئے اور چالیس سے زیادہ زخمی ہو گئے۔

سینکڑوں عراقی باشندوں نے جائے حادثہ پر پہنچنے والے برطانوی فوجیوںپر پتھراور پٹرول بم برسائے۔ اِن ہنگاموں کے بعد عراقی پولیس نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا، جو ہفتے کی شب آٹھ بجے سے اتوار کی صبح چَھ بجے تک جاری رہا۔ کرفیو ختم کئے جانے کے بعد بصرہ میں حالات کافی حد تک پرسکون بتائے جا رہے ہیں۔

دریں اثناء برطانوی فوجیوں نے جائے حادثہ سے ہیلی کاپٹر کا تقریباً مکمل ملبہ ہٹا لیا ہے۔ برطانوی وَزارتِ دفاع کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر کے اِس حادثے میں پانچ برطانوی فوجی ہلاک ہو گئے، جس کے بعد اب تک عراق میں مرنے والے برطانوی فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 109 ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ بصرہ کے اندر اور آس پاس برطانوی فوج کے کوئی آٹھ ہزار سپاہی فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

اِدھر بلدیاتی انتخابات میں اپنی لیبر پارٹی کی عبرتناک شکست کے بعد وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر پر خود اپنے پارٹی اراکین کی جانب سے بھی دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔

خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ فروری میں سامرّہ میں امام حسن عسکری کے رَوضے پر حملے کے بعد سے عراق کی شیعہ اور سنی آبادی کے درمیان جھڑپوں میں نمایاں طور پر اضافہ ہو گیا ہے اور حالات تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

غالباً شیعہ سنی مخاصمت ہی کاثبوت وہ لاشیں بھی ہیں، جوخصوصاً دارالحکومت بغداد میں آئے روز مل رہی ہیں۔ اِس اختتامِ ہفتہ پر صرف بغداد سے 43 مردوں کی لاشیں ملی ہیں، جن کے ہاتھ پُشت پر بندھے ہوئے تھے اور جن کے جسم گولیوں سے چھلنی تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کام شیعہ اور سنی ڈَیتھ اسکواڈز کا ہے۔ اِس طرح سے مرنےوالے عراقی باشندوں کی تعداد بھی اب کئی سو تک پہنچ چکی ہے۔

شیعہ اور سنی گروہوں کی ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں عراق میں ہزاروں کنبوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ نقل مکانی سے متعلقہ امور کی خاتون عراقی وزیر سہیلہ عابد جعفر کے مطابق تقریباً 15 ہزار کنبوں یعنی کوئی ایک لاکھ سے بھی زیادہ انسانوں کو اپنے آبائی گھروں سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑی ہے۔

ایک سرکردہ عراقی سیاستدان عدنان الدلائمی نے ہمسایہ ایران پر عراق کے اندرونی معاملات میںمداخلت کا الزام عاید کیا ہے اور کہا ہے کہ مختلف عراقی خِطوں میں ایران کی سیکرِٹ سروِس کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ تاہم دلائمی نے کہا کہ اِس سلسلے میں سامنے آنے والی خبروں کی تصدیق کرنا فوج کا کام ہے۔

اِدھر جرمن ٹیلی وژن کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش نے ایک بار پھر عراق جنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدام حسین انتہائی خطرناک شخص تھا اور اُسے اقتدار سے ہٹانا ایک درست اقدام تھا۔ بُش نے زور دے کر کہا کہ عراق مغربی ممالک کی طرح کی جمہوریت کے راستے پر گامزن ہے لیکن اِس کےلئے کچھ وقت ضرورلگے گا۔ بُش نے کہا، جب تک وہ صدر ہیں، عراق میں مشن مکمل کئے بغیر واپسی خارج از امکان ہے۔