1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عراق و شام میں تیس ہزار غیر ملکی دہشت گرد فعال ہیں‘

عاطف بلوچ5 جولائی 2016

اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا ہے کہ شام اورعراق میں تیس ہزار ’غیر ملکی دہشت گرد‘ فعال ہیں، جو واپس اپنے ممالک جا کر وہاں دہشت گردی کی کارروائیاں سرانجام دے سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JJb5
Symbolbild - Flagge ISIS
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسداد دہشت گردی کے سربراہ ژاں پال لابرودی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے حامی جنگجو واپس اپنے ممالک لوٹ رہے ہیں، اس لیے ان ممالک میں بھی دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

پانچ جولائی بروز منگل جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لابرودی کا کہنا تھا، ’’شام اور عراق میں غیر ملکی جنگجوؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔‘‘ لابرودی اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق میں داعش کو شکست کے بعد یہ جہادی اب شام اور واپس اپنے آبائی ممالک کو لوٹ رہے ہیں۔

لابرودی کے بقول ان جہادیوں سے یورپ کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ مراکش اور تیونس کام نام لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ جنگجو اب واپس اپنے وطنوں کو لوٹ رہے ہیں، ’’عراق اور شام میں ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں یہ واپس لوٹ رہے ہیں۔ وہاں اب حملوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘‘

لابرودی نے عالمی برداری پر زور دیا ہے کہ انہیں ان شورش زدہ ممالک سے واپس لوٹنے والے جنگجوؤں کے مابین تفریق کے لیے ایک نظام بنانا چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ کون سا جنگجو ان کی ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے اور کون نہیں۔

فرانس کے سابق جج لابرودی نے کہا کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے لیے ایک نظام رکھتی ہے لیکن ’دہشت گرد تنظیموں کی لچک اور حالات کے مطابق مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت اندازوں سے زیادہ تیز ہو سکتی ہے‘۔

انہوں نے انٹر نیٹ سرچ انجن گوگل کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور مائیکروسوفٹ پر زور دیا ہے کہ وہ آن لائن ممکنہ خطرات کی نشاندہی کے لیے عالمی برداری سے زیادہ تعاون کریں۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ اس نئے نظام کی وجہ سے آزادی رائے پر کوئی قدغن نہیں لگنا چاہیے۔

Irak Soldaten in Nord-Ramadi
شام اور عراق میں ان جہادیوں کے خلاف عالمی کارروائی جاری ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo

لابرودی نے مزید کہا کہ اس نئے خطرے کے تناظر میں حکومتوں کو خفیہ معلومات کے تبادلے میں تیزی لانا چاہیے، ’’اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی گیارہ ستمبر سن 2001 میں امریکا میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بنائی گئی تھی۔ اس کمیٹی میں سلامتی کونسل کی رکن ریاستوں کے نمائندے شامل کیے جاتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں