1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عرب بہار‘ پانچ سال بعد ’عرب خزاں‘ بن چکی

امجد علی13 جنوری 2016

چَودہ جنوری 2011ء کو تیونس کے عوام جوق در جوق ملکی دارالحکومت کی سڑکوں پر نکل آئے اور اُنہوں نے طویل عرصے سے برسرِاقتدار چلے آرہے آمر حکمران زین العابدین بن علی کی حکومت کا تختہ الٹ کر پوری دنیا کو حیران کر ڈالا۔

https://p.dw.com/p/1HcMJ
Symbolbild Arabischer Frühling Ägypten
مصر میں ’عرب بہار‘ کے نتیجے میں ایک آمر گیا تو دوسرا آ گیا اور حالات پہلے سے بھی کہیں ابتر شکل اختیار کر گئےتصویر: AFP/Getty Images/M. Abed

اس انقلاب نے عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اس کے نتیجے میں دیگر عرب ملکوں میں بھی ایسی ہی انقلابی تحریکیں شروع ہو گئی تھیں۔ انقلابی تحریکوں کے اس سلسلے کو ’عرب اسپرنگ‘ یا ’عرب بہار‘ کا نام دیا گیا۔

دریں اثناء ان انقلابی تحریکوں کے آغاز کو پانچ سال ہونے والے ہیں۔ جو ممالک تیونس کی مثال پر عمل پیرا ہوئے، آج اُن کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہے۔ نئے آمر حکمرانوں، خانہ جنگیوں اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ جیسے زہریلے اور ہولناک گروپوں نے لوگوں کی ساری امیدیں خاک میں ملا دی ہیں۔

’عرب اسپرنگ‘ کے آغاز کی یاد تازہ کرنے کے لیے ورلڈ بینک کے نائب صدر حافظ غانم نے حال ہی میں ایک کتاب تحریر کی ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’وہ بڑے پُرجوش دن تھے۔ ہر طرف جمہوریت کا بخار تھا۔ لیکن کیا کوئی ملک، جس کے پاس جمہوری روایات نہ ہوں اور جس کے ادارے کمزور ہوں، درحقیقت ایک فعال جمہوری ریاست کا روپ دھار سکتا ہے اور راتوں رات اپنے شہریوں کی زندگیاں بہتر بنا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہے، نہیں۔‘‘

تیونس

’عرب بہار‘ دیگر ممالک میں ناکام ہی کیوں نہ ہوئی ہو، خود تیونس میں، جہاں سے اس انقلابی تحریک کا آغاز ہوا تھا، بہرحال مثبت تبدیلی آ چکی ہے۔ اس ملک میں ایک نئی منتخب حکومت برسرِاقتدار آ چکی ہے اور اس کے سول سوسائٹی کی چار تنظیموں پر مشتمل ’نیشنل ڈائیلاگ کوارٹَیٹ‘ کو گزشتہ برس جمہوری عمل میں معاونت پر امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

مصر

مصر میں ’عرب بہار‘ کے نتیجے میں حسنی مبارک کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا لیکن وہاں حالات مزید بگڑ گئے اور فوج نے مبارک کے جانشین محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ مرسی ملک کے پہلے آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے سویلین صدر تھے۔ اُس وقت کے آرمی چیف عبدالفتاح السیسی نے حکومت سنبھال لی اور مرسی کے حامیوں پر عرصہٴ حیات تنگ کر کے رکھ د یا۔ اس دوران سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا اور ہزاروں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

لیبیا

لیبیا میں طویل عرصے سے حکمران چلے آ رہے معمر القذافی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک بہت جلد ایک ایسی مسلح بغاوت کی شکل اختیار کر گئی، جسے معربی دفاعی اتحاد نیٹو کی بھی بھرپور معاونت حاصل تھی۔ 2011ء میں قذافی کی حکومت ختم ہو گئی اور اُنہیں ہلاک کر دیا گیا تاہم یہ ملک تبھی سے مسلسل خانہ جنگی اور سیاسی ابتری کا شکار چلا آ رہا ہے۔ دریں اثناء وہاں ’اسلامک اسٹیٹ‘ اپنے قدم جما چکی ہے۔

Tunesien Sidi Bouzid Jahrestag Ausschreitungen Arabischer Frühling
’عرب بہار‘ دیگر ممالک میں ناکام ہی کیوں نہ ہوئی ہو، خود تیونس میں، جہاں سے اس انقلابی تحریک کا آغاز ہوا تھا، بہرحال مثبت تبدیلی آ چکی ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Dridi)

یمن

یمن میں وسیع پیمانے پر عوامی مظاہروں کے بعد طویل عرصے سے برسرِاقتدار چلے آ رہے صدر علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ملک عدم استحکام سے دوچار ہو گیا۔ شیعہ حوثی باغیوں کی جانب سے صالح کے جانشین کو دارالحکومت صنعاء سے بھاگ نکلنے پر مجبور کیے جانے کے بعد سے یہ ملک مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ سعودی عرب اور اُس کے اتحادی ممالک نے گزشتہ سال مارچ میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ شروع کی تھی، جو بدستور جاری ہے اور جس میں اب تک چھ ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔

شام

’عرب بہار‘ کے نتائج کسی بھی دوسرے ملک میں اتنے زیادہ مایوس کن نہیں رہے، جتنے کہ شام میں۔ شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے ایک ہولناک خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے، جو اب تک دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ زندگیوں کے چراغ گُل کر چکی ہے اور جس کے دوران اب تک کئی ملین شامی اپنا گھر بار چھوڑ کر در بدر ہو چکے ہیں۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ شام کے وسیع تر علاقوں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ عراق کے بھی بہت سے علاقوں میں ’خلافت‘ کے قیام کا اعلان کر چکی ہے اور اسلام کی انتہا پسندانہ تشریح کرتے ہوئے انسانوں پر ظلم کی انتہا کر رہی ہے۔

Thema Libyen zwei Jahre nach der Revolution
گزشتہ سال مارچ میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف بدستور جاری جنگ میں اب تک چھ ہزار سے زیادہ انسان ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: DW/E. Zuber

کیا اب بھی امید کی کرن باقی ہے؟

’انٹرنیشنل کرائسس گروپ‘ سے وابستہ تجزیہ کار مائیکل اَیاری کہتے ہیں: ’’عرب اسپرنگ کو تاریخی اعتبار سے دیوارِ برلن کے خاتمے سے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سرِدست یہ تحریک زوال کا شکار ہے۔ عرب دنیا میں تبدیلی ایک ایسا عمل ہے، جس میں کئی عشرے لگ سکتے ہیں۔‘‘

’دی عرب اسپرنگ فائیو ایئرز لیٹر‘ کے مصنف حافظ غانم لکھتے ہیں کہ اگرچہ عرب دنیا میں تبدیلی کا عمل ایک پُر تشدد بلکہ ڈرا دینے والی شکل اختیار کر گیا ہے لیکن اگر عرب ریاستیں اقتصادی ترقی کے حصول اور اچھی حکومتوں کے قیام کے لیے جامع پالیسیاں اختیار کرنا شروع کر دیں تو ابھی بھی مثبت تبدیلی کی امید موجود ہے: ’’عرب اسپرنگ کسی موسم کا نام نہیں ہے، یہ ایک نئے سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کو جانے والے راستے پر پہلا اور ایک اہم قدم ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید