1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عرب دنيا کے انقلاب اور کشمير

18 مارچ 2011

ايسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے زير انتظام کشمير ميں اب عوام بھارتی فوج کی موجودگی اور بھارتی رياست کی بالا دستی کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے ہيں ۔

https://p.dw.com/p/10bvK
کشمير ميں کرفيو کے دوران ايک شخص اپنے گھر کی کھڑکی سے ويران سڑک کو ديکھ رہا ہےتصویر: UNI

سری نگر ميں خوبصورت ڈل جھيل کی ايک کشتی کے مالک سلطان راگا کا کہنا ہے کہ پہلے يہاں بہت سے جرمن سياح بھی آتے تھے ، جس سے يہاں بہت خوشحالی پيدا ہو گئی تھی ليکن کشمير کی وادی ميں بغاوت شروع ہونے کے بعد سے سياحت بہت کم ہوگئی ہے۔

اگرچہ مبینہ طور پر پاکستان کی مالی مدد اور پشت پناہی سے بھارت کے خلاف ہونے والی اس بغاوت کو بڑی حد تک کچل ديا گيا ہے ليکن اب بھی ہزاروں بھارتی فوجی اور نيم فوجی دستے کشمير ميں تعينات ہيں۔ پچھلے موسم گرما ميں جب سيکيورٹی فورسز نے ايک طالبعلم کو ہلاک کرديا تھا، تو ہنگامے پھر شروع ہوگئے تھے۔ اس دوران نيم فوجی دستوں سے تصادم کےنتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

عليحدگی پسند عوامی فرنٹ کے سجاد لونے کی توجہ مصر کی طرف ہے۔ انہوں نے کہا، ’تحرير چوک تو ہر جگہ ہی ہے‘۔

Eines der Shikara genannten berühmten Boote
کشمير کی ڈل جھيلتصویر: UNI

پچھلے سال ہزاروں نوجوانوں نے فوج اور نيم فوجی دستوں کی کارروائيوں پر احتجاج کرتے ہوئے آزادی کا مطالبہ کيا تھا۔ ليکن کشميريوں اور ان کے سياستدانوں ميں اس پر اتفاق رائے نہيں کہ يہ آزادی کس قسم کی ہونی چاہيے اور اس کا کيا مصرف ہوگا۔

عوامی فرنٹ کے معمر رہنما سيد علی شاہ گيلانی اب بھی پاکستان سے الحاق چاہتے ہيں، جب وہ ہڑتال کی اپيل کرتے ہيں تو مشکل ہی سے کوئی ان کی بات مانتا ہے،’ سری نگر ميں دکانيں کھلی رہتی ہيں اور سڑکوں کی رونق ميں کوئی کمی نہيں آتی۔ ڈل جھيل کی ہاؤس بوٹ کے مالک سلطان راگا نے کہا،’پاکستان کی حالت ديکھتے ہوئے لوگ وہاں جانا نہيں چاہتے۔ ہم بھارت سے مطمئن ہيں۔ وہ ايک بہت بڑا ملک ہے اور يہ کشمير کے لیے اچھا ہے‘۔

Kaschmir Auschreitungen Gewalt Proteste Militär
سری نگر کی ايک سڑک پر بھارتی نيم فوجی دستے کے سپاہیتصویر: AP

مسلم اکثريت والے کشمير ميں اس قسم کی بات شاذونادر ہی سننے کو ملتی ہے۔ يہاں کے زيادہ تر لوگ خود مختاری کا مطالبہ کرتے ہيں۔ خود کو کشميری قوم پرست کہنے والے سجاد لونے نے کہا، ’آزادی ہدف نہيں بلکہ سمت کا تعين ہے‘۔

عوامی جمہوری پارٹی کی محبوبہ مفتی زيادہ خود مختاری کی حامی ہيں۔ وہ بھارتی حصار کا خاتمہ چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا،’ بھارتی سيکيورٹی فورسز کی اس زبردست موجودگی کا خاتمہ ہونا چاہيے۔ اُسے رہائشی علاقوں سے ہٹ کر بيرکوں ميں واپس چلے جانا چاہيے۔ اس طرح ہی خود مختاری کا آغاز ہوگا‘۔

بھارت کے زير انتظام کشمير ميں تنازعے سے تھک جانے والے عوام کی باتوں کے ساتھ ساتھ يہ الزام بھی عام ہے کہ بھارتی حکومت کشمير کے مستقل بحران کو ختم ہی نہيں کرنا چاہتی۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں