1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

علاقائی سلامتی کے لیے پاک بھارت فوجیں قریب آئیں

1 نومبر 2011

بھارت میں سابق اعلیٰ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں نیوکلیائی طاقت رکھنے والے دو دیرینہ حریفوں کوخطے کی سلامتی اور ترقی کی خاطر دونوں ملکوں کی فوجوں کو باہمی عسکری تعلقات کو بہتربنانے میں پہل کرنی چاہیے۔

https://p.dw.com/p/132xX

بھارت کے سابق اعلیٰ فوجی افسران اور دفاعی ماہرین نے پچھلے دنوں بھارتی فوج کے ایک ہیلی کاپٹر، جس پر ایک لیفٹیننٹ کرنل، دو میجر اور ایک جونیئر کمشنڈ آفیسر سوار تھے، کے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہو جانے کے معاملے کو صرف چند گھنٹوں میں خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر لیے جانے پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو دونوں ملکوں کی ملٹری کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے اور بد اعتمادی کی فضا کو کم کرنے کے لیے ایک مثبت پہل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

Soldiers Rangers - Konflikt Indien Pakistan
تصویر: AP

خیال رہے کہ دونوں ملک اب تک تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور سرحد کے دونوں طرف ہزاروں فوجی تعینات ہیں اور کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ باہمی تعلقات کو مزید کشیدہ کردیتا ہے۔

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ انیلیسس ونگ یا RAW کے سابق سربراہ بی رمن کہتے ہیں کہ گو کہ بھارت کے فوجی ہیلی کاپٹر کا پاکستانی حدود میں داخل ہو جانا ایک غیرارادی اور اتفاقیہ واقعہ تھا لیکن پاکستانی فوج چاہتی تو اس سے غیر ضروری پریشانیاں پیدا کر سکتی تھی، بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب کہ عسکریت پسندوں کے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی میں اضافہ کرنے کے لیے پاکستان پر امریکہ کا زبردست دباؤ ہے، اسلام آباد دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر سکتا تھا کہ اسے بھارت کی طرف سے کس قدر فوجی خطرہ لاحق ہے۔ تاہم پاکستان آرمی نے اس واقعے کو طول دینے کے بجائے جس طرح چند گھنٹوں کے اندر اندر بھارتی ہیلی کاپٹر کو واپس جانے کی اجازت دے دی، اس سے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اعلیٰٰ فوجی تدبر کا پتہ چلتا ہے۔

Pakistanischer Armeechef Ashfaq Kayani
پاکستانی فوج کے سربراہ اشفاق پرویز کیانیتصویر: AP

بی رمن کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کا یہ رویہ قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ جب ہم پاکستانی فوج کے کسی غلط اقدام کی نکتہ چینی کرتے ہیں تو اس کے اچھے اور مثبت اقدام کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے پہل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور 'ہمیں جنرل کیانی کو بھارت آنے کی دعوت دینے پر بھی غور کرنا چاہیے‘۔

مؤقر تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنفلکٹ اسٹڈیز کے سربراہ میجر جنرل ریٹائرڈ دیپانکر بنرجی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سن 1965 کے بعد سے حالانکہ سابق فوجی افسران کے درمیان مختلف سطحوں پر رابطے ہیں، لیکن حاضر سروس فوجی افسران کے درمیان مسلسل رابطے کی کوئی صورت نہیں بن سکی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ حالانکہ دونوں ملکوں کے فوجیوں کا پیشہ لڑائی کرنا ہے تاہم دونوں ملکوں کے فوجیوں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کس طرح اعتماد سازی کے ایسے اقدامات کیے جائیں کہ لڑائی کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس راستے پر آگے بڑھنا ہو گا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی قوت ارادی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔‘‘

Indisch-Russische Zusammenarbeit
تصویر: AP

میجر جنرل بنرجی نے مشورہ دیا کہ دونوں ملکوں کے فوجی افسران اور حکام کو چاہیے کہ وہ مسائل کے سیاسی حل کی راہ میں کسی بھی طرح رخنہ نہ ڈالیں۔

بہرحال یہاں سابق فوجی افسران کا ایک ایسا حلقہ بھی موجود ہے، جس کا خیال ہے کہ پاکستان پر کسی بھی صورت میں بھروسہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہو گا۔ ریٹائرڈ میجرجنرل گیان دیپ بخشی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ پاکستان نے پچھلے ساٹھ برسوں میں بھارت کو چین سے جینے نہیں دیا، 1947-48 میں حملہ آور بھیجے، سن 1965 میں تیس ہزار درانداز بھیجے اور کارگل میں ناردرن لائٹ انفنٹری والوں کو سول ڈریس اور شلوار قمیض پہنا کر بھیج دیا۔‘‘ جنرل بخشی نے کہا، ’’ ہم پاکستان سے صرف یہی درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں چین سے جینے دیں، البتہ کئی مرتبہ تو میں سوچتا ہوں کہ اگر پاکستانی فوج کی اتنی ہی تمنا ہے تو ہو جائے جو کچھ ہونا ہے۔‘‘

سابق فوجی افسران نے دونوں ملکوں کے میڈیا کے رویے کی بھی تعریف کی، جس نے ہیلی کاپٹر معاملے کی رپورٹنگ میں تحمل سے کام لیا اور اپنی عادت کے برعکس رائی کا پہاڑ بنانے سے گریز کیا۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں