1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غربت میں کمی کے بھارتی منصوبوں پر ورلڈ بینک کی تنقید

19 مئی 2011

بھارت میں حکومت کی جانب سے اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ غربت کم کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ اس مناسبت سے جاری اسکیموں کے بنیادی پلان پر ورلڈ بینک کی جانب سے تنقید سامنے آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/11JMz
تصویر: AP

عالمی بینک کے ماہر اقتصادیات جان بلوم کوئسٹ کا خیال ہے کہ بھارت میں غریبی ختم کرنے کی جو اسکیمیں عمل میں لائی جا رہی ہیں ان میں روپے کی قدر اور اہمیت کو علیٰحدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کا عنصر بھی شامل ہے اور اس باعث ان کے اثرات گراس روٹ سطح تک پہنچنے سے قبل ہی مختص فنڈ ختم ہو جاتے ہیں۔ بھارتی سماجی مبصرین پہلے ہی پلانز کو ناپائیدار ہونے کی بنیاد پر ناکام قرار دے چکے ہیں۔ اس باعث کئی غیر سرکاری تنظیمیں مسلسل اس صورت حال پر اپنے تبصرے اور رپورٹس جاری کرتی رہتی ہیں۔

ان حکومتی اسکیموں میں مختلف سطحوں پر بدعنوانی کے عنصر کی موجودگی کے باعث غربت میں کمی کا ہدف مشکل بنا ہوا ہے۔

عالمی بینک کے اہم اور سینئر اکانومسٹ جان بلوم کوئسٹ کے مطابق غربت ختم یا اس میں کمی لانے کے اہم حکومتی ادارے، پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم (PDS) کے بیورو کریٹک سیٹ اپ کے اندر ایسا خلا موجود ہے کہ غریبوں کے لیے خوراک کی فراہمی اور تیل کی سپلائی مقررہ اہداف تک پہنچنے سے قبل ہی ہڑپ ہو جاتی ہے۔ بلوم کوئسٹ کے مطابق بھارت کی سالانہ شرح پیداوار کا صرف دو فیصد سماجی بھلائی کے پروگراموں کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ اس دو فیصد میں غریب تک بہت ہی کم حصہ پہنچ پاتا ہے۔ عالمی بینک کے اکانومسٹ کا یہ بھی واضح کرنا ہے کہ مختلف اسکیموں کے ثمرات اس آبادی تک پہنچ ہی نہیں پاتے کہ فنڈ ختم ہو جاتے ہیں۔

Stadtteil Malad von Mumbai in Indien Flash-Galerie
ممبئی کے پوش علاقے کے پہلو میں واقع غریبوں کی بستیتصویر: DW

بھارت میں غربت ختم کرنے کے حوالے سے ورلڈ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس بڑے ملک میں بیالیس فیصد لوگ سوا ڈالر روزانہ کی کم رقم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس رپورٹ میں بھارت میں صحت عامہ کے علاوہ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کے ساتھ ساتھ کثیف غذائی صورت حال کو براعظم افریقہ کے پسماندہ سب صحارہ علاقے کے بعض انتہائی غریب ملکوں سے بھی بدتر سطح پر محسوس کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں سیفٹی کے معیارات کے کمزور ہونے کی جانب بھی نشاندہی کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ غربت ختم کرنے کی پائیدار تحریکیں حکومتی سطح پر موجود ہے لیکن سرکاری حدود میں مناسب حفاظتی معیارات نہ ہونے کی وجہ سے ان تحریکوں کے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم کے سیٹ اپ میں کثیر سرمائے کے استعمال ہونے کی وجہ سے اس ادارے کے زیر سایہ کل غریب آبادی کےایک چوتھائی غریب حکومتی پلان سے فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔

عالمی بینک کے ماہر اقتصادیات جان بلوم کوئسٹ کی رپورٹ سن 2004 اور 2005 میں مرتب کیے گئے سرکاری اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ نئی دہلی میں مقیم عالمی بینک کے اکانومسٹ کے مطابق سن 2004 اور 2005 میں حکومت کی جانب سے غریبوں تک جواجناس پہنچ سکی تھیں وہ صرف 41 فیصد تھیں جو غریب آبادی کے حجم کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ جان بلوم کوئسٹ نے اپنی رپورٹ میں پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم کو تحلیل کرنے کو اہم نہیں قرار دیا بلکہ غریب آبادی کو اجناس و تیل کے ساتھ ساتھ سرمایہ بھی فراہم کرنا اشد ضروری قرار دیا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں