1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غریب افریقی علاقوں میں ملیریا سے ہلاکتیں جاری

13 جولائی 2011

عالمی سطح پر ناقابل علاج کینسر اور ایڈز جیسے امراض پر عوامی و حکومتی توجہ فوکس ضرور ہے لیکن براعظم افریقہ کے انتہائی پس ماندہ علاقوں میں ملیریا سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

https://p.dw.com/p/11u7V
تصویر: picture-alliance /dpa

ہر سال آٹھ لاکھ کے قریب افراد براعظم افریقہ کے غریب اور پس ماندہ علاقوں میں ملیریا بخار میں مبتلا ہو کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس مناسبت سے کئی بین الاقوامی اداروں میں احساس پایا جاتا ہے اور عالمی ادارہ صحت بھی اپنے وسائل کے دائرے میں رہتے ہوئے کم ترقی یافتہ افریقی ممالک کے لیے مدافعتی ادویات و تحقیق کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

دوسری جانب افریقی ملکوں میں اس مناسبت سے بین الاقوامی امداد کے علاوہ مقامی اور قدیمی طریقہ علاج کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔ بر اعظم افریقہ کے ملک تنزانیہ میں ملیریا بخار کے پھیلاؤ کا سبب بنے والے مچھروں کی ہلاکت کے لیے گندی اور بدبُودار جرابوں کے علاوہ انسانی بدن سے نکلنے والی دوسری بُو کے استعمال کے تصور کو متعارف کروایا گیا ہے۔ اس تصور کو افکارا ہیلتھ انسٹیٹیوٹ (IHI) کے محققین کی ریسرچ کے بعد اب عملی شکل دی جا رہی ہے۔ گندی اور بدبُو دار جرابوں سے ملیریا کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے مچھروں کی ہلاکت کا نظریہ افکارا انسٹیٹوٹ سے وابستہ ریسرچر فریڈروس اوکومو (Fredros Okumu) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پیش کیا ہے۔ فریڈروس اوکومو اعلیٰ تعلیم یافتہ محقق ہیں، انہوں نے لندن اسکول برائے ہائجین سے ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔

Flash-Galerie UN Millennium Ziele 6 Krankheiten bekämpfen
افریقہ میں ملیریا قاتل بیماری سے لاکھوں افراد سالانہ بنیادوں پر ہلاک ہو جاتے ہیںتصویر: AP

انسانی جسم سے حاصل ہونے والی ناخوشگوار بُو کو مزید تیز کرنےکے حصول میں رضاکاروں کو کچھ کیمیاوی مرکب بھی دیے گئے ہیں۔ اس تیز بُو کے استعمال سے ملیریا پھیلانے والے مچھر کو ہلاک کرنے کی ڈیوائس بنانے میں اب کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔

اس پراجیکٹ کو مزید بہتر کرنے کے لیے مائیکروسوفٹ کے ادارے کے بانی بل گیٹس کی قائم ملینڈا اینڈ گیٹس فاؤنڈیشن نے خطیر امدادی رقم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پراجیکٹ کی شروعات بھی گیٹس فاؤنڈیشن کے عطیے سے ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ کینیڈا کا ایک ادارہ گرینڈ چیلینجز بھی اس پراجیکٹ کے لیے مالی معاونت کے عمل میں شریک ہے۔ گرینڈ چیلینجز نامی ادارے کو حکومت کینیڈا کی مالی معاونت بھی حاصل ہے۔ گندی جرابوں کی بُو سے مچھر بھگانے کا ریسرچ پراجیکٹ سن 2009 سے جاری ہے۔

اس نئے پراجیکٹ میں شامل ریسرچر فریڈوس اوکومو کا کہنا ہے کہ نئے طریقے سے مچھروں کو گھر میں داخل ہونے سے روکا جا سکے گا کیونکہ ناخوشگوار بُو کی حامل ڈیوائس گھروں کے باہر رکھی جائیں گی۔ فریڈوس کے مطابق ملیریا کا سبب بننے والے مچھر کی افزائش گھروں کے باہر ہی ہوتی ہے۔ فریڈوس کا کہنا ہے کہ ملیریا پھیلانے والے مچھر انسانی بدن سے نکلنے والے بُو یا پسینے یا سانس میں پائی جانے والی بُو کو محسوس کر کے ان کی جانب لپکتے ہیں۔ اوکومو کے مطابق یہی انسانی بدن کی بُو کو ایک مخصوص آلے میں استعمال کیا گیا ہے اور جب مچھر اس آلے پر آ کر بیٹھے گا تو اس میں موجود زہریلے مادے اسے ہلاک کرنے میں کارآمد ہوں گے۔ اب تک اس ڈیوائس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مچھر جب اس آلے پر بیٹھے گا تو پہلے سے موجود زہریلا کیمیکل اس کی ٹانگوں پر اثر کرے گا اور وہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہلاک ہو جائے گا۔

اندازوں کے مطابق ایک ہزار افراد کی آبادی والے گاؤں کے لیے بیس سے پچیس آلوں کی ضرورت ہو گی۔ دو سالوں سے جاری پراجیکٹ کی ابھی ابتدائی شکل ہے اور اس کو اگلے مہینوں میں مزید بہتر کیا جائے گا۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں