1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غریب کے لیے شہرت بھی وبال جان

عدنان اسحاق23 ستمبر 2015

بھارت میں ایک پولیس افسر کے ہاتھوں بدسلوکی کا نشانہ بننے والے ایک ٹائپسٹ کی تصاویر نے سماجی ویب سائٹس پر ہل چل برپا کر دی تھی۔ اب یہ شہرت اس ٹائپسٹ کے لیے وبال جان بنتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gbpr
تصویر: Getty Images/AFP

ٹائپسٹ کشن کمار کا کہنا ہے کہ جب سے سماجی ویب سائٹس پر ان کی تصاویر شائع ہوئی ہیں، وہ پریشان ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ اور صحافی روزانہ ان سے ملنے آ جاتے ہیں۔ کشن کمار کے مطابق ’’ اگر میں کماؤں گا نہیں تو اپنے گھر والوں کو کیا کھلاؤں گا۔ میں یہاں کام کرنے آتا ہوں ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دینے نہیں‘‘۔

ان کے بقول حکام کی جانب سے انہیں ایک نیا ٹائپ رائٹر دے دیا گیا ہے لیکن وہ لوگوں کے رش کی وجہ سے معمول کے مطابق کچھ نہیں کر پا رہے۔ ’’ میرے گرد اتنے سارے لوگ جمع ہوتے ہیں کہ مجھے کام میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔ میں پچھلے دو دنوں سے ایک چوّنی بھی کما نہیں پایا ہوں‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس شہرت سے وہ تنگ آ چکے ہیں۔

Indien Kishan Kumar
تصویر: Getty Images/AFP

کشن کمار گزشتہ پینتیس برسوں سے لکھنؤ کے مرکزی مرکزی ڈاک خانے کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھ رہے ہیں۔ وہ لوگوں کے خطوط اور عرضیاں ٹائپ کر کے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ دنوں کے دوران انہیں متعدد افراد کی جانب سے ٹیلیفون کالز موصول ہوئیں اور لوگوں نے ان سے ہمدری کا اظہار کیا اور مالی تعاون کے وعدے بھی کیے۔ ’’ کئی افراد نے مجھ سے میرے اکاؤنٹ کی تفصیلات پوچھیں لیکن کئی دن گزر گئے ہیں اور مجھے کسی کی جانب سے کوئی رقم موصول نہیں ہوئی ہے۔‘‘

کشن کمار اُس وقت ایک معروف شخصیت بن گئے، جب ایک پولیس والے کی جانب سے ان کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی اور ان کے ٹائپ رائٹر کو توڑنے کی تصاویر شائع ہوئیں۔ یہ واقعہ 19 ستمبر بروز ہفتہ پیش آیا۔ اس واقعے پر مقامی انتظامیہ نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ سب انسپکٹر پردیپ کمار کو معّطل کر دیا اور کش کمار کو ایک لاکھ روپے دینے کا وعدہ بھی کیا۔ ساتھ ہی انہیں ایک نیا ٹائپ رائٹر بھی دیا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کشن کمار ساٹھ کے پیٹے میں ہیں۔ انہوں نے اس بدسلوکی پر پولیس اہلکار کو معاف بھی کر دیا ہے۔’’میری اس سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ وہ میرے بیٹوں جیسا ہے اور اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہو گیا ہے‘‘۔