1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزّہ جنگ میں اہداف کی تکمیل ہوگئی ہے: اسرائیلی وزیرِ اعظم

12 جنوری 2009

اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود آلمرٹ نے اپنی کابینہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل نے غزّہ جنگ کے بیشتر مقاصد پورے کر لیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GWGY
غزّہ سے نہ صرف یہ کہ اسرائیلی سرزمین کے اندر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اس کے دائرہ کار میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہےتصویر: AP

یروشلم سے ہمارے نمائندے ہریندرا مشرا کا کہنا ہے جنگ میں اسرائیلی کامیابی کے دعوے کے باوجود غزّہ سے نہ صرف یہ کہ اسرائیلی سرزمین کے اندر راکٹ داغے جانے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اس کے دائرہ کار میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ شروع کرنے کا مقصد اسرائیل نے راکٹ داغے جانے کے سلسلے کو روکنا بتایا تھا۔

Gaza-Offensive - Israelische Soldaten beim Gebet
اسرائیلی افواج غزّہ شہر کے گنجان آباد علاقوں تک پہنچ گئی ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa


غزّہ جنگ کے سولہویں روز اسرائیلی افواج غزّہ شہر کے گنجان آباد علاقوں تک پہنچ گئیں جب کہ اتوار کے روز اسرائیلی افواج نے مزید ستائیس افراد ہلاک کردیے ہیں۔ دوسری جانب حمّاس عسکریت پسندوں نے اسرائیلی افراج پر ٹینک شکن میزائل فائر کیے۔ حمّاس کی جانب سے اسرائیل کے جنوبی شہروں میں راکٹ داغے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود آلمرٹ نے اپنی کابینہ کو بتایا ہے کہ اسرائیل غزّہ جنگ میں اپنے تمام تر اہداف تقریباً حاصل کرچکا ہے۔ سولہ روز سے جاری اس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق آٹھ سو ساٹھ سے زائد ہوچکی ہے۔

Treffen von Obama Bush und Ex-Präsidenten
مشرقِ وسطیٰ سے متعلق پالیسیوں میں اوباما جارج بش سے کتنے مختلف ثابت ہوں گے؟تصویر: AP


دوسری جانب امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان نے ایک قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی ہے جس میں غزّہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین کو اکثریت حاصل ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے نو منتخب صدر باراک اوباما بیس جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے ہیں۔

Symbolbild UNO Gaza
جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششوں کے باوجود جنگ ہنوز جاری ہے۔ اب تک کم ازکم آٹھ سو ستّر افراد اس جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔تصویر: AP/DW Fotomontage


نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما نے امریکی ریڈیو اے بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ بیس جنوری کو امریکی صدر کا حلف لیتے ہی وہ فلسطین اسرائیل تنازعے کے حل کے لیے کوششیں شروع کردیں گے۔ باراک اوباما کے مطابق وہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے ایک ٹیم تشکیل دیں گے۔ اوباما کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ شرقِ اوسط کے لیے ایک ایسی پالیسی وضح کریں گے جس سے اسرائیل اور فلسطین دونوں کی خواہشات کی تکمیل ہوسکے گی۔ تاہم باراک اوباما نے یہ بھی کہا کہ ہر ملک کو جارحیت کے خلاف دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔

واشنگٹن میں ہمارے نمائندے انور اقبال نے ڈائچے ویلے اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت مشکل ہے کہ باراک اوباما مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے پیش روؤں سے مختلف کوئی پالیسی اختیار کریں تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ مخالف امن پسند لابی امریکہ میں اثر رکھتی ہے اور اوباما کی پالیسیوں پر ضرور اثر ڈالے گی۔