1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ: جنگ اور فائر بندی کوششیں، دونوں زوروں پر

13 جنوری 2009

غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے اور اب جنوب کی طرف سے بھی اسرائیلی دستے گنجان آباد غزہ سٹی کے زیادہ سے زیادہ قریب پہنچ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GWzp
اٹھارہ روز سے جاری اس جنگ میں دو سو سے زائد بچے بھی ہلاک ہوئےتصویر: AP

پیر کو بھی اسرائیلی فضائیہ نے غزہ پٹی میں ساٹھ مختلف اہداف پر حملے کئے۔ اِن میں سے اکٹھے بیس حملے مصر کے ساتھ ملحقہ سرحد پر واقع اُن سرنگوں پر کئے گئے، جنہیں اسرائیل کے بقول فلسطینی عسکریت پسند ہتھیار غزہ میں اسمگل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جواب میں عسکریت پسند فلسطینیوں نے بھی بیس سے زیادہ راکٹ اسرائیل کی جانب فائر کئے۔

ban ki moon
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور مصری وزیر خارجہ احمد ابوالغیط سلامتی کونسل میں غزہ پر ہونے والی ایک ووٹنگ کے دورانتصویر: ap

اِسی دوران اقومِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مُون نے فائر بندی کی کوششوں کے سلسلے میں خطے کا دورہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔کل بدھ کو شروع ہونے والے اُن کے اِس دورے کا مقصد عالمی سلامتی کونسل کے اُس مطالبے سے ہے، جس میں فائر بندی پر زور دیا گیا ہے۔

گذشتہ شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا:’’سب سے زیادہ مَیں اُن معصوم لوگوں کے لئے اپنی گہری تشویش اور ہمد دی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، جو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں دونوں جگہ ہولناک حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ نو سو سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور کوئی چار ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔ وہ نہ تو کہیں چھپ سکتے ہیں اور نہ کہیں بھاگ کر جا سکتے ہیں۔ مَیں اپنے دَورے کا آغاز قاہرہ سے کروں گا اور بعد میں اردن، اسرائیل، فلسطین، ترکی، لبنان اور شام جاؤں گا۔ میرے دَورے کا اختتام کویت میں ہو گا، جہاں عرب لیگ کا سربراہ اجلاس ہو رہا ہے۔ وہاں ہم اب تک ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ آئندہ اقدامات کا خاکہ تیار کریں گے۔‘‘

Ehud Barak im Gespräch mit britischem Premierminister Tony Blair am 4. Januar 2009
چہار فریقی گروپ برائے مشرق وسطےٰ کے خصوصی مندوب ٹونی بلیئر اسرائیلی وزیر دفاع کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئےتصویر: AP

اِسی دوران چہار فریقی گروپ برائے مشرقِ وُسطےٰ کے خیال میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی ممکن ہے۔ اِس گروپ کے خصوصی مندوب اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کل مصری دارالحکومت قاہرہ میں صدر حوسنی مبارک کے ساتھ ملاقات کی۔ بعد میں اُنہوں نے کہا:’’ مجھے اُمید ہے کہ ہم ایک سمجھوتے کا خاکہ تیار کر سکتے ہیں لیکن اُس پر سخت محنت کرنا ہو گی اور اُسے قابلِ اعتبار ہونا چاہیے، غزہ کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ روکنے کے حوالے سے بھی اور غزہ پٹی کی تمام سرحدی گذر گاہیں کھولنے کے حوالے سے بھی۔‘‘

اُدھر امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش نے بہ طور صدر اپنی آخری پریس کانفرنس میں اسرائیلی موقف کی تائید و حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پائیدار فائر بندی حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملے بند کرنے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

پیر کی شام حماس کے سرکردہ رہنما اسماعیل ھنیہ نے غزہ میں اپنے کسی خفیہ ٹھکانے سے ٹیلی وژن پر اپنے ایک خطاب میں عندیہ دیا کہ اپنی قوم کے خلاف جارحیت ختم ہونے کی صورت میں حماس فائر بندی کی کسی بھی کوشش میں تعاون کے لئے تیار ہے۔ اکتیس دسمبر کے بعد اپنے اِس دوسرے خطاب میں اُنہوں نے غزہ کے فلسطینیوں پر ثابت قدم رہنے کے لئے زور دیا اور کہا کہ فتح قریب ہے۔