1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ میں زندگی معمول کی طرف رواں

24 جنوری 2009

غزہ میں فائر بندی کے بعد، ہفتہ کے روز پہلی مرتبہ تقریباً دو لاکھ بچے سکولوں کا رخ کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GfNM
تصویر: picture-alliance/ ZB

تین ہفتے تک اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں کے دوران ان میں سے کئی بچے اپنے والدین، گھر باراور احساس تحفظ تک کھو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ریلیف اور ورکس ایجنسی کے زیر انتظام 221 سکولوں کو کھول دیا گیا ہے۔ چند سکولوں میں اب بھی کئی خاندان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ دوران جنگ بھی ان سکولوں کو ریفیوجی کیمپوں کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

Gazastreifen Zerstörung Hamasgebäude
امید کی جا رہی ہے کہ غزہ میں سکولوں کے کھلنے سے زندگی معمول پر آجائے گی اور جنگ سے متاثرہ بچوں کو راحت ملے گی۔تصویر: AP

سکولوں کی عمارتوں پر حملے: تقریباً ایک ہفتہ قبل بیت لحیا کے الذکر سکول کی عمارت کی دوسری منزل پر اسرائیلی بمباری کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے مطابق بمیاری کے نتیجے میں سکول میں پناہ لیے 1,600افراد میں سے دو بچے ہلاک اور تقریباً بارہ افراد زخمی ہوئے۔ الذکر سکول، ان تین سکولوں میں سے ایک تھا جہاں فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اور سکول پر چھ جنوری کو اسرائیلی شیلنگ سے 40 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے سکولوں کے علاوہ سرکاری سکول بھی آج سے کھول دئیے گئے ہیں۔

سکولوں کو کھولنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب جمعہ کے روز اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت دے دی گئی۔ غزہ پٹی کے پندرہ لاکھ شہریوں میں سے اسی فی صد افراد اقوام متحدہ کی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ گزشتہ نومبر سے اسرائیل نے غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل پر پابندی لگا رکھی تھی جس کے بعد چھ ماہ کے فائر بندی معاہدے کے خاتمے پر فریقین کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوا تھا۔

غزہ کی تقریباً پندرہ لاکھ آبادی کا نصف سے زلئد حصہ اٹھارہ سال سے کم عمر سے تعلق رکھتا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ غزہ میں سکولوں کے کھلنے سے زندگی معمول پر آجائے گی اور جنگ سے متاثرہ بچوں کو راحت ملے گی۔