1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ میں فائر بندی کے لئے کئی محاذوں پر سفارتی کوششیں جاری

15 جنوری 2009

غزہ پٹی کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی کے آغاز کے تقریباً تین ہفتے اور ایک ہزار سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے بعد وہاں فائر بندی کے ابتدائی آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

https://p.dw.com/p/GYdE
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون بدھ کو قاہرہ میں مصری وزیر خارجہ احمد ابوالغیط کے ہمراہتصویر: AP

اسرائیلی ٹینکوں اور توپخانے سےغزہ سٹی پر بمباری کا سلسلہ آج بیس ویں روز بھی جاری ہے۔ غزہ پٹی میں پانچ لاکھ کی آبادی والے اِس شہر کو اسرائیلی دستوں نے گذشتہ کئی روز سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔

Israelische Offensive im Gazastreifen 14.1.2009
بدھ کو رفاہ مہاجر کیمپ کے قریب مبینہ طور پر غزہ میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لئے استعمال ہونے والی سرنگیں اسرائیلی بمباری کی زَد میںتصویر: AP

اسپین کے وزیر خارجہ مگیل آنگیل موراتینوس نے پہلے تو یہ اعلان کیا کہ قاہرہ میں مذاکرات کے لئے گئے ہوئےحماس کے وفد نے فائر بندی کے سلسلے میں مصر کا تیارکردہ سمجھوتہ قبول کر لیا ہے۔ بعد ازاں مغربی اُردن میں راملہ کے ایک دورے کے موقع پر البتہ اُنہوں نے یہ کہا کہ منصوبے پر اتفاقِ رائے تو ہے لیکن ابھی بھی کچھ کام باقی ہے۔

اِس سے پہلے فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور اُن کے وزیر خارجہ بیرنار کُشنیر نے بھی جلد فائر بندی سمجھوتہ ہو جانے کی قوی اُمید ظاہر کی۔

بدھ سے مصری دارالحکومت قاہرہ میں اپنا ثالثی مشن شروع کرنے والے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایک پریس کانفرنس میں مصری قیادت کی کوششوں کو سراہا، جن کی کوششوں سے فائر بندی سمجھوتے کی بنیادیں طے کی گئی ہیں۔ بان کی مون کے مطابق فائر بندی ہونے کے بعد ہی اگلے اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ سب سے پہلی اور اہم ترین چیز فائر بندی ہے، اِس کے بعد انسانی امداد اور تعمیر نو پر بات ہو گی اور اِس موضوع پر بحث کی جا سکے گی کہ کیسے بین الاقوامی مبصرین وغیرہ کے ذریعے غزہ کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

Hamas PK in Ägypten
بدھ چودہ جنوری کو حماس کے وفد کے ایک رکن صلاح البرداویل قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: AP

گذشتہ رات بھی غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے نتیجے میں مزید کم از کم دَس افراد مارے گئے۔ امدادی ٹیموں کے سربراہ معاویہ حسنین کے مطابق اب تک ایک ہزار تینتیس فلسطینی مارے جا چکے ہیں جبکہ تقریباً چار ہزار آٹھ سو پچاس زخمی ہوئے ہیں۔

قاہرہ میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ تمام شہری ہلاکتوں اور ہزارہا زخمی افراد کے بارے میں سوچ کر وہ بہت دکھ محسوس کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کی اب بھی یہ کوشش ہو گی کہ وہ غزہ کے اندر جائیں، اگرچہ موجودہ حالات کے تناظر میں وہ نہیں جانتے کہ ایسا ممکن ہو بھی پائے گا کہ نہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل آج اسرائیل میں اپنے ادارے کے اُن کارکنوں کے ساتھ ملاقات کریں گے، جو غزہ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ واضح رہے کہ غزہ میں اقوام متحدہ کی سرگرمیاں 1948ء سے جاری چلی آ رہی ہیں، جب اسرائیل کے قیام کے لئے ہونے والی جنگ سے بچنے کے لئے ہزارہا فلسطینی بھاگ کر اِس علاقے میں چلے آئے تھے۔ غزہ پٹی کے 1,5 ملین سے زیادہ باشندوں کا انحصار آج بھی اقوامِ متحدہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی اَشیائے ضرورت پر ہے۔

اُدھر آج جمعرات کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بھی ایک ہنگامی اجلاس میں غزہ میں فائر بندی پر زور دیا جائے گا۔ اِسی دوران عرب حکومتیں حماس کی جانب کوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ بائیس رُکنی عرب لیگ کے درمیان دوہہ سربراہ کانفرنس منعقد کرنے پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کے بعد سعودی عرب نے غزہ کی مسلسل ابتر ہوتی ہوئی صورتحال پر غور کرنے کے لئےآج جمعرات کو دارالحکومت ریاد میں خلیجی عرب ممالک کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔

مصر کے دورے پر گئے ہوئےحماس کے ایک مذاکرات کار صلاح البرداوِیل نے قاہرہ میں صحافیوں کو بتایا کہ اُن کی تنظیم نے فلسطینی مطالبات بتا دئے ہیں۔ مصر کے وضع کردہ منصوبے میں جہاں فوجی کارروائیاں بند کرنے اور سرحدی گذرگاہیں کھولنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں اسرائیل کو یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ حماس کو پھر سے ہتھیار بند نہیں ہونے دیا جائے گا۔