1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ پٹی: انسانوں کے لئے ایک پنجرہ

14 مارچ 2010

اسرائیلی پابندیوں اور داخلی بحرانی حالات کی وجہ سے خود مختار فلسطینی علاقوں میں سے غزہ کی صورت حال ایسی ہے کہ خود اقوام متحدہ کی طرف سے بھی اسے انسانی حوالے سے انتہائی تکلیف دہ قرار دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/MSQ7
تصویر: AP
Catherine Ashton EU Außenministerin
یورپی یونین کی خارجہ اور سلامتی امور کی نگران کیتھرین اَیشٹنتصویر: AP

اسی پس منظر میں ابھی حال ہی میں یورپی یونین کی خارجہ اور سلامتی امور کی نگران عہدیدار کیتھرین اَیشٹن نے جب مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تو وہ خاص طور پر غزہ پٹی کے علاقے میں بھی گئیں۔ غزہ پٹی کے رہنے والے زیادہ تر انسانوں کے لئے صورت حال ایسی ہے، جیسے وہ کسی جیل میں بند ہوں۔

’’یہاں انسان سانس تو لیتے ہیں مگر وہ زندگی نہیں گزارتے!‘‘

یہ بات جان گِنگ نے اپنے ایک حالیہ دورہء برلن کے دوران کہی۔ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے جان گِنگ غزہ پٹی کے علاقے میں فلسطینی مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے UNRWA کے سربراہ ہیں۔ ان کے اس مؤقف سے غزہ یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ابو سعد بھی پوری طرح اتفاق کرتے ہیں، ’’غزہ پٹی کے علاقے میں ایسے لگتا ہے کہ ہم مقبوضہ حالت میں مرتے جا رہے ہیں۔‘‘

ابو سعد نامی ماہر سیاسیات کو غزہ پٹی کے علاقے سے رخصتی کی اجازت جرمن سفارت کاروں کی مدد اور بڑی کوششوں کے بعد ملی۔ وہ ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے برلن آئے تھے۔ لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ وہ کب واپس غزہ جا سکیں گے۔ اس لئے کہ غزہ پٹی کی مثال ایک ایسی جیل کی سی ہے، جس کے مکینوں کو باہر نکلنے کی اور باہر سے کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ابوسعد کہتے ہیں، ’’غزہ پٹی کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ وہاں قائم سات سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان میں سے چھ گزرگاہیں اسرائیل کے ساتھ سرحدوں پر واقع ہیں اور ساتویں مصر کے ساتھ سرحد پر۔ لیکن یہ تمام سرحدی گزرگاہیں مکمل طور پر بند ہیں۔ انہیں صرف انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لئے کھولا جاتا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کو جیسے پنجرے میں بند کر دیا گیا ہے۔ قریب پندرہ لاکھ فلسطینی جو خود کچھ بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

غزہ کی جنگ کے ایک سال سے بھی زائد عرصے بعد تک اس چھوٹی سی ساحلی پٹی کے رہنے والے انسانوں کو درپیش انتہائی تشویشناک حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ غزہ پٹی کے لئے اقوم متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی UNRWA کے سربراہ جان گِنگ کہتے ہیں کہ اس فلسطینی علاقے میں عام شہریوں کو حقیقی معنوں میں تباہ کن صورت حال کا سامنا ہے، ’’وہاں ایک عام انسان کے لئے زندگی ناقابل برداشت حد تک مشکلات سے عبارت ہے۔ اسّی فیصد سے زائد آبادی زندہ رہنے کے لئے اقوام متحدہ کی طرف سے ملنی والی امدادی خوراک پر انحصار کرتی ہے۔ تین لاکھ شہریوں کے پاس کسی بھی قسم کے کوئی وسائل موجود ہی نہیں ہیں۔ وہ کپڑے دھونے کے لئے صابن بھی نہیں خرید سکتے۔‘‘

John Ging vom UN-Flüchtlingshilfswerk
غزہ پٹی کے علاقے میں فلسطینی مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے UNRWA کے سربراہ جان گنگتصویر: AP

غزہ پٹی کے مکینوں کو پینے کا تازہ پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔ نوے فیصد شہریوں کو محض وہ آلودہ پانی دستیاب ہے جس کا عالمی ادارہ صحت کے پینے کے پانی سے متعلق طے کردہ کم ازکم معیارات سے بھی کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔

جان گِنگ کو شکایت ہے کہ شرم الشیخ میں منعقدہ کانفرنس میں تو 5.5 بلین ڈالر کی فراہمی کے وعدے کئے گئے تھے، مگر گزشتہ ایک سال کے دوران تعمیر نو کے لئے غزہ کے مجبور عوام تک ایک ڈالر بھی نہیں پہنچا۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں