غزہ کا بحران اور مصری امن منصوبہ
8 جنوری 2009دوسری جانب اسرائیل کے شمالی علاقوں میں لبنان سے راکٹ حملوں اور جوابی بمباری کے بعد صورتحال میں مزید کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔
اسی دوران اقوام متحدہ کے امن فوج کے مزید دستے لبنان۔اسرائیل سرحد پر تعینات کر دئیے گئے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے کسی واقعے کو روکا جاسکے۔
لبنانی سیکیورٹی فورسز نے بھی ان واقعات کی روک تھام کے لئے سرحد پر اپنے معمول کے گشت میں اضافہ کر دیا ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں فرانس اور مصر کی جانب سے پیش کئے گئے جنگ بندی کے منصوبے کے اصولوں پر رضامندی ظاہر کردی تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ ابھی اس سلسلے میں شرائط طے ہونا باقی ہیں۔ عسکریت پسند تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی جانب پیش رفت کے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔
یورپی یونین کے موجودہ ششماہی کے صدر ملک جمہوریہ چیک کے وزیر خارجہ شوارزن برگ کا کہنا ہے:’’ہمیں معلوم تھا کہ ہم فوری جنگ بندی کا مقصد فوراً حاصل نہیں کر پائیں گے تاہم ہمارا اہم مقصد خطّے کے دیگر ممالک کو ساتھ ملا کریہ طے کرنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘
یورپی یونین کے خارجہ امور کی کمشنر بینِیٹا فریرووالٹنر نے غزہ جنگ کے متاثرین کی امداد کے حوالے سے کہا:’’ ہمیں ان کی مدد کرنی ہے جو غزہ پٹی یا غزہ شہر کے رہائشی ہیں تاکہ اس مشکل وقت میں ان کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔‘‘
اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جنگ کے متاثرین شہریوں کے لئے ادویات اور خوراک کی ترسیل کے لئے جنگ میں روزانہ تین گھنٹے کے وقفے کا اعلان کیا گیا۔
اسرائیلی فوجی ترجمان کا کہنا ہے:’’اسرائیل کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر چند گھنٹوں کی فائر بندی ہو گی تاکہ لوگ گھروں سے باہر جا کر اپنی ضروریات زندگی کی ضروری اشیاء اور ادویات حاصل کر سکیں۔‘‘
اسرائیل کے شمالی حصّوں میں سیکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل یہ اعلان سن 2006ء میں اس وقت کیا گیا تھا جب حزب اللہ کی جانب سے لبنانی علاقوں سے حماس کی حمایت میں اسرائیل پر راکٹ حملے شروع کئے گئے تھے۔ 2006ء میں اسرائیل۔لبنان جنگ میں سینکڑوں شہری ہلاک ہوئے تھے۔