1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ کے لیے ایک نئے امدادی قافلے کی کوششیں

29 جون 2011

یونان سے ابھی دوسرا ’فری غزہ‘ فلوٹیلا غزہ پٹی کی جانب روانہ بھی نہیں ہوا کہ اسرائیل کی جانب سے تند و تیز بیانات جاری ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اسرائیل کے مطابق وہ غزہ پٹی کی بحری ناکہ بندی آئندہ بھی جاری رکھے گا۔

https://p.dw.com/p/11lQo
2010ء: غزہ قافلے پر اسرائیلی حملہ
2010ء: غزہ قافلے پر اسرائیلی حملہتصویر: AP

یہ غزہ سٹی کی بندرگاہ ہے، جہاں دوپہر کی تیز دھوپ میں نیلے پینٹ سے رنگی ہوئی درجنوں ماہی گیر کشتیاں ہلکورے لے رہی ہیں۔ تین کم سن بچے وقت گزاری کے لیے پانی میں جال پھینک کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ محمد اور اسماعیل نامی ماہی گیر بندرگاہ سے تقریباً پچاس میٹر دور اپنی ہَٹ کے سائے میں لیٹے ہوئے ہیں۔

تیس برسوں سے یہاں ماہی گیر کے طور پر کام کرنے والے اسماعیل کے خیال میں اس بات کا امکان کم ہی ہے کہ اگلے چند روز میں نئے امدادی قافلے کے بحری جہاز یہاں لنگر انداز ہوں گے:’’ہم امید تو کرتے ہیں، خدا کرے کہ بین الاقوامی امدادی بحری جہاز یہاں تک آنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن مشکل ہی ہے کہ وہ ایسا کر پائیں۔ اسرائیلیوں کے ساتھ اپنے تجربے کی بناء پر ہم اُن کے سخت طرزِ عمل سے واقف ہیں۔ اگر اسرائیلی بحری ناکہ بندی کا اعلان کرتے ہیں تو پھر وہ اس پر قائم رہیں گے۔ جب اُنہوں نے چپوؤں والی کشتیوں پر بھی تین ماہ کے لیے پابندی لگا دی تھی تو ایک بھی کشتی پانی میں نہیں جا سکتی تھی۔‘‘

2010ء:بین الاقوامی غزہ امدادی قافلے کے استقبال کے لیے غزہ کے فلسطینی کشتیوں میں بیٹھے ہوئے، پس منظر میں اسرائیلی بحری جہاز
2010ء: امدادی قافلے کے استقبال کے لیے غزہ کے فلسطینی کشتیوں میں بیٹھے ہوئے، پس منظر میں اسرائیلی جنگی بحری جہازتصویر: AP

بندرگاہ کے داخلی دروازے پر دو فلسطینی اور دو ترک پرچموں سے سجی ایک یادگار ہے، جو اُن 9 ترک امدادی کارکنوں کی یاد دلاتی ہے، جو 2010ء میں مئی کے اواخر میں پہلے امدادی قافلے کے ساتھ آنے والے بحری جہاز ماوی مرمارا پر سوار تھے اور جنہیں اسرائیلی فوجیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔

38 سالہ ماہی گیر محمد کا کہنا ہے کہ تب بھی اور اب بھی غزہ میں بسنے والے انسانوں کے لیے امدادی فلوٹیلا لانے والے کارکنوں کی کوششیں بے انتہا اہمیت کی حامل ہیں، اور کچھ نہیں تو کم از کم عالمی رائے عامہ کو یہ دکھانے کے لیے کہ اسرائیل گزشتہ کئی برسوں سے بدستور غزہ پٹی کی ناکہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے:’’اسرائیلی فوج امدادی قافلوں کے سلسلے میں اپنے طرزِ عمل کا جواز یہ دیتی ہے کہ غزہ میں اَشیائے ضرورت کی کوئی قلت نہیں اور سرنگوں کے راستے سب کچھ یہاں پہنچ رہا ہے۔ دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سرنگیں اُن کے لیے خطرہ ہیں۔ اگر سمندر کی جانب ہمارا راستہ کھول دیا جائے تو سرنگوں کی اس ساری کہانی کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔‘‘

غزہ پٹی کے باسیوں کے دل میں امدادی قافلہ لے کر جانے والے اِن بین الاقوامی کارکنوں کے لیے بے حد احترام ہے کیونکہ اُن کے خیال میں یہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے کی بجائے کم از کم اپنی سی کوشش تو کر رہے ہیں۔

رپورٹ: کلیمنز فیرن کوٹے (تل ابیب) / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں