1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف گرینڈ ‌‌آپریشن کا فیصلہ

فرید اللہ خان، پشاور22 ستمبر 2015

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبہ بھر میں قیام پذیر غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف گرینڈ ‌‌آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں شہروں دوسرے میں دیہات اور تیسرے مرحلے میں مہاجر کیمپوں سے انہیں نکالا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1GaUq
Afghanistan Flüchtlinge am Khyber Grenzübergang nach Pakistan Archivbild
تصویر: Tanveer Mughal/AFP/Getty Images)

اس آپریشن میں پختونخوا پولیس، فرنٹیز کانسٹبلری اور دیگر سکیورٹی ادارے حصہ لیں گے۔ یہ فیصلہ پشاور کے نواحی علاقہ بڈھ بیر کی فضائی بیس پر ہونے والے اس حملے کے بعد کیا گیا ہے، جس میں فضائیہ کےانتیس اہلکار ہلاک جبکہ تیرہ حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت سولہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جبکہ پندرہ لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین غیرقانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔

افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد صوبہ خیبر پختونخوا اور اس سے ملحق قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ پاک افغان چیمبر کے جائنٹ ڈائریکٹر ضیا الحق کا کہنا ہے، ’’اب افغانستان کے زیادہ تر علاقو‌ں میں امن قائم ہے وہاں لوگ اپنا کاروبار کررہے ہیں لیکن ہمارے ہاں حالات ابھی تک خراب ہیں۔ غیر قانونی افغان مہاجرین یہاں جرائم میں ملوث ہوتے ہیں لہذا یہ اب وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بین الااقوامی اداروں کو قائل کریں کہ اب ان مہاجرین کے لئے افغانستان کے اندر پرامن رہائش کے انتظامات کریں۔‘‘

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار دو سے اب تک اڑتیس لاکھ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا چکا ہے لیکن واپس جانے والوں میں سے زیادہ تر دوسرے راستوں سے واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔ واپس آنے والے لوگوں میں پشاور کے رہائشی رحیم اللہ بھی شامل ہیں، جن کا کہنا تھا، ’’طالبان کا دور ختم ہونے کے بعد میں اپنے ملک چلا گیا تھا لیکن وہاں حالات دن بدن خراب ہوتے رہے اور مجھے مجبوراﹰ واپس آنا پڑا۔ پھر چند سال بعد اس نیت سے گیا کہ واپسی کے لئے حالات کا جائزہ لوں لیکن آج بھی وہاں کی صورتحال جوں کا توں ہے۔‘‘

دوسری جانب جس دن پاکستان کو افغان حکومت کی جانب سے مہاجرین کی مدت رہائش میں توسیع کی درخواست ملی تھی، اس کے دوسرے روز ہی پاکستانی سکیورٹی اداروں نے ایسے باون افغان مہاجرین کو حراست میں لیا تھا، جو غیر قانونی ذرائع سے عسکریت پسندوں کو رقوم ارسال کرتے رہے تھے۔

آرمی پبلک اسکول کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے وفاقی اداروں کے تعاون سے غیر قانونی افغان مہاجرین کو نکالنے کے لئے اقدامات شروع کئے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب افغان مہاجرین واپس جاچکے ہیں لیکن اس عمل کو افغان حکومت اور وفاق کے بعض اداروں کی ہدایت پر روک دیا گیا اور اب جب بڈھ بیر کے ایئر فورس بیس پر حملہ ہوا تو صوبائی حکومت نے ایک مرتبہ پھر وہاں مقیم غیر قانونی افغان مہاجرین کے خلاف مرحلہ وار آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔

پختونخوا پولیس کے ترجمان ریاض احمد سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا،’’نیشنل ایکشن پلان کے بعد سرچ اینڈ سٹرائیک کے دوران پولیس نے چودہ ہزار سے زیادہ افغان مہاجرین کو حراست میں لیا گیا۔ انہیں وزارت داخلہ کے حوالے کیا جاتا ہے اور بعدازاں انہیں افغانستان بھیجا جاتا ہے۔ جرائم میں ملوث غیر قانونی مہاجرین کے خلاف یہ آپریشن ابھی جاری ہے۔‘‘

پشاور میں مقیم قانونی افغان مہاجرین شوریٰ کے چئیرمین بریالے میاں خیل کا کہنا ہے، ’’افغان حکومت ہماری مشکلات کے حل کے لئے کچھ نہیں کر رہی۔ ان کے بیانات ہمارے لئے یہاں مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں، دونوں ممالک کے حکمران بیٹھ کر اس مسئلے کا پائیدار حل نکالیں ورنہ ہم پشاور سے کابل تک احتجاجی مارچ شروع کریں گے۔‘‘

جہاں سیکورٹی اداروں کو غیر قانونی افغانوں کے خلاف کارروائی کا کہا گیا ہے، وہاں سرکاری طبی مراکز کو بھی ہدایات دی گئی ہیں کہ غیر قانونی افغان مہاجرین کو مفت طبی سہولیات کی فراہمی بند کی جائے۔ پشاور کے سب سے بڑے طبی مرکز (لیڈی ریڈنگ ہسپتال) کے ترجمان جمیل شاہ کا کہنا ہے، ’’پابندی لگانے کا تو نہیں لیکن یہ ہدایت ضرور دی گئی کہ مفت طبی سہولیات کی فراہمی کے وقت ان مہاجرین کے کارڈز ضرور دیکھے جائیں۔‘‘