1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر قانونی پاکستانیوں کی واپسی کے معاملے پر اتفاق رائے

افسر اعوان8 فروری 2016

پاکستان کی طرف سے آج پیر کے روز بتایا گیا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ غیر قانونی تارکین وطن کے حوالے سے 2010ء کے ایک معاہدے پر نظر ثانی کے لیے اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hrbo
تصویر: picture alliance/NurPhoto/A. Widak

اس معاہدے کے تحت یورپ غیر قانونی طور پر پہنچنے والے پاکستانیوں کو واپس بھیج سکے گا۔
اسلام آباد کی طرف سے گزشتہ برس نومبر میں یورپی یونین سے ایسے پاکستانی شہریوں کی وطن واپسی کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا جو غیر قانونی طور پر اس 27 رکنی بلاک کے کسی بھی رکن ملک پہنچے ہوں۔ پاکستانی حکومت نے اس کی وجہ اس قانون کا ’بے حد غلط استعمال‘ بیان کیا تھا۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی حکام نے دسمبر میں ان 30 پاکستانیوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جنہیں تین یورپی ممالک نے ملک بدر کر کے ایک جہاز کے ذریعے بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس پیشرفت کے بعد یورپی یونین نے پاکستان کو ایک انتباہ بھی جاری کیا تھا۔

اُس وقت پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ یورپی یونین پاکستان بھیجنے سے قبل پاکستانی حکام کو اس بات کی اجازت دے کہ وہ ملک بدر کیے جانے والوں کی شناخت کی تصدیق کر سکے۔ تاہم برسلز نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔ چوہدری نثار کی طرف سے آج بتایا گیا ہے کہ فریقین کی دو فروری کو ہونے والی ملاقات میں اس معاملے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔

Chaudhry Nisar Ali Khan
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal

چوہدری نثار علی خان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق، ’’برسلز میں ری ایڈمشن کمیشنر کی ملاقات میں ایک وسیع البنیاد اتفاق رائے ہو گیا ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’یورپی یونین نے ایسے افراد کی وطن واپسی سے متعلق پاکستان کے ساتھ قبل از وقت شواہد کے تبادلے کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے جو کسی مجرمانہ یا دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث ہوں۔‘‘

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یورپی یونین کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس حوالے سے ایک میٹنگ ہوئی ہے اور یہ کہ دونوں فریقوں نے لوگوں کی وطن واپسی کے طریقہ کار کو واضح اور آسان بنانے پر غور و خوص کیا ہے۔ تاہم اس خاتون ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ آیا بلاک اس معاہدے کے بارے میں پاکستان کے تحفظات پر کوئی مثبت رد عمل دے گا یا نہیں۔