1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانسیسی صدارتی امیدوار کو انگریزی بولنے پر تنقید کا سامنا

11 جنوری 2017

فرانس میں صدارتی امیدوار ایمانوئل ماکروں کو انگریزی زبان میں تقریر کرنے کی وجہ سے دائیں بازو کے سیاستدانوں کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس طرح فرانسیسی زبان کی ’توہین‘ کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/2Vdsq
Frankreich Emmanuel Macron gibt seine Kandidatur bekannt
تصویر: Getty Images/AFP/P. Kovarik

فرانس کے اعتدال پسند صدارتی امیدوار ایمانوئل ماکروں کو نہ صرف انگریزی زبان میں تقریر کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا ہے بلکہ انہوں نے برلن میں ہونے والے ایک کانفرنس کے دوران یورپی یونین کا دفاع بھی کیا۔ اس انتالیس سالہ انتخابی امیدوار کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ صدارتی دوڑ میں ایک اہم امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں۔

فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست خاتون سیاستدان مارین لے پین نے اس صدارتی امیدوار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’صدارتی امیدوار ماکروں برلن گئے ہیں تاکہ انگریزی زبان میں کانفرنس کر سکیں ۔۔۔ غریب فرانس۔‘‘ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے اس بیان کی دستاویز پر لے پین نے دستخظ بھی کیے ہیں۔

تاہم لے پین کے ایک وفادار ساتھی فلوریاں فیلیپو نے اس سے بھی سخت الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ نیشنل فرنٹ نامی پارٹی کے اس نائب صدر کا کہنا تھا، ’’اس بات نے صرف یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ (ماکروں) ہماری زبان کی عزت نہیں کرتے اور  وہ فرانس پر یقین بھی نہیں رکھتے۔‘‘

فرانسیسی حکومت مولیئر جیسے ادیبوں کی استعمال کردہ ملک کی قومی زبان کی بھرپور حفاظت کرتی ہے اور پیرس حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اس زبان میں کسی دوسری زبان کی آمیزش نہ ہونے دی جائے۔ مولیئر سترہویں صدی کے ایک معروف فرانسیسی شاعر، ڈرامہ نگار اور اداکار تھے، جن کا شمار مغربی ادب میں ایک نمایاں مزاح نگار کے طور پر ہوتا تھا۔

فرانس کے نو آبادیاتی ماضی کی وجہ سے دنیا بھر میں فرانسیسی زبان بولنے والوں کی تعداد 220 ملین سے بھی زائد ہے۔ فرانس کے زیادہ تر لیڈر اپنی قومی زبان ہی میں بات کرتے ہیں اور انہیں انگریزی زبان میں مہارت بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح موجودہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کی بھی شیکسپیئر کی زبان انگریزی پر دسترس کمزور ہے۔ تاہم فرانس کی نوجوان نسل انگریزی زبان کو ناگزیر سمجھتی ہے۔

فرانسیسی صدر اولانڈ کا سن دو ہزار بارہ میں اس وقت مذاق اڑایا گیا تھا ، جب امریکی صدر باراک اوباما دوبارہ منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے اوباما کو بھیجے جانے والے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا تھا: ’فرینڈلی، فرانسوا اولانڈ‘۔