1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی روز افزوں مقبولیت

10 مارچ 2011

فرانس میں آئندہ برس مجوزہ صدارتی انتخابات میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو زبردست کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ ایک نئے سروے کے مطابق دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت کی قائد مارین لے پین انتخابات کا پہلا مرحلہ جیت سکتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/10WiW
مارین لے پینتصویر: dapd

اِس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ موجودہ صدر نکولا سارکوزی کو شکست دے دیں۔ اِس سروے کے نتائج نے فرانس کی روایتی جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

پہلے تو اخبارات نے دائیں بازو کی اِس انتہا پسند رہنما کے نام کے پہلے حصے مارین کو لے کر مختلف کہانیاں بنائیں، اب لیکن خود یہ خاتون رہنما انپے اِس نام کے حوالے سے یہ کہہ رہی ہیں کہ ایک ’مارین بلیو لہر‘ اُنہیں فتح کی منزل تک لے کر جائے گی۔ سروے کے مطابق اگر آج صدارتی انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو 24 فیصد فرانسیسی رائے دہندگان دائیں بازو کی اِس انتہا پسند سیاستدان کو ووٹ دیں گے، جو آج کل یورپی پارلیمان کی رکن ہیں۔ حمایت کی یہ شرح نکولا سارکوزی یا سوشلسٹوں کے کسی ممکنہ اُمیدوار کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

Nicolas Sarkozy, französischer Wirtschafts- und Finanzminister
فرانسیسی صدر نکولا سارکوزیتصویر: AP

فرانسیسی انتخابی نظام میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ نو سال پہلے کی طرح انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مقابلہ دائیں بازو کے امیدوار اور غالباً ایک سوشلسٹ امیدوار کے درمیان ہو گا۔ کنزرویٹو پارٹی کے لیے اِس سروے کے یہ نتائج ایک دھچکے کے مترادف ہیں کہ نکولا سارکوزی شاید دوسرے مرحلے میں بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔ تاہم کنزرویٹو پارٹی کے قائد محض اعداد و شمار کی مثالیں دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’اگر مَیں کنزرویٹو پارٹی کے لیے سارکوزی اور ڈے ولپاں کو ملنے والی حمایت کو ملا کردیکھوں (جو کہ اب تک کوئی بھی نہیں کر رہا) تو یہ حمایت 24 اور شاید 27 فیصد بنتی ہے۔‘‘

گویا اِس طرح کی مثالوں کی مدد سے سارکوزی کی جماعت UMP خود کو حوصلہ دے رہی ہے۔ یہ مثال اِس لیے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ اب تک تمام تر شواہد سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم ڈے ولپاں سارکوزی کے خلاف میدان میں اُتریں گے۔ صدر سارکوزی اِس لیے بھی ہدفِ تنقید بن رہے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں اُن موضوعات کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا، جو دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں۔ سارکوزی کی جماعت کے ایک رکنِ پارلیمان نے تو یہ خدشہ ظاہر کیا کہ فرانس اب ایک جانب دشمن ملک بننے جا رہا ہے۔ سارکوزی کی جماعت کے بہت سے سیاستدانوں کے خیال میں رائے عامہ کے جائزوں میں سارکوزی کی پوزیشن تبھی بہتر ہو گی، جب وہ اگلے 14 ماہ کے دوران بے روزگاری کی اونچی شرح کو کم کریں گے اور معیشت کو تحریک دیں گے۔

اُدھر سوشلسٹ ابھی بھی کسی موزوں اُمیدوار کی تلاش میں ہیں۔ ان ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں خاتون پارٹی قائد اوبری اور آٹھ مزید مشہور شخصیات کے ساتھ ساتھ عالمی بینک کے صدر ڈومینیک شٹراؤس کاہن بھی شامل ہیں، جن کی سروے میں پوزیشن سارکوزی سے بھی بہتر رہی۔

بہرحال صدارتی انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں دائیں بازو کی انتہا پسند رہنما مارین لے پین کی کامیابی کی پیشین گوئی کرنے والے سروے کی حیثیت متنازعہ ہے کیونکہ یہ جائزہ انٹرنیٹ کی مدد سے مرتب کیا گیا۔ اِس کے باوجود فرانس میں بہت سے اداروں کے درمیان اِس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ دائیں بازو کے سزا یافتہ انتہا پسند رہنما ژاں ماری لے پین کی بیٹی کو بہت زیادہ ووٹ ملیں گے۔ خود مارین لے پین کہتی ہیں:’’مَیں بہت سکون کے ساتھ اِس ساری صورتحال کو دیکھ رہی ہوں۔ مَیں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو جوش میں آ جاتے ہیں، ایک سروے کے اچھے نتائج کی صورت میں بھی نہیں۔‘‘

Dominique Strauss-Kahn / IWF / Washington
ورلڈ بینک کے صدر ڈومینیک شٹراؤس کاہنتصویر: AP

مارین لے پین ایسا کہہ سکتی ہیں کیونکہ بڑی جماعتوں کے برعکس اُن کی جماعت نیشنل فرنٹ ملک کی اُن دو ہزار بلدیات میں بہت زیادہ سرگرم کردار ادا کر رہی ہے، جہاں اگلے دو ہفتوں میں مقامی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ یہ بات یقینی تصور کی جا رہی ہے کہ نیشنل فرنٹ کو وہاں زبردست کامیابی ملے گی، جو 2012ء کے صدارتی انتخابات کے لیے ایک ٹھوس بنیاد ثابت ہو گی۔

رپورٹ: یوہانیس ڈوخروف (پیرس) / امجد علی

ادارت: ندیم گِل