1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانس: دہشت گردوں کی شہریت منسوخ کرنے کی تجویز پر شدید بحث

عاطف بلوچ3 جنوری 2016

فرانس میں سزا یافتہ دہشت گردوں کی شہریت منسوخ کرنے کا منصوبہ گرما گرم سیاسی بحث کا باعث بن گیا ہے۔ اس حکومتی تجویز کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ستائش کر رہی ہیں تاہم بائیں بازو کی پارٹیاں اس کی شدید مخالف ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HXKk
Francois Hollande Marc Guillaume Kabinett Paris Frankreich
صدر فرانسوا اولانڈ (دائیں) نے عہد کیا ہے کہ وہ ملک میں انتہا پسندی کا خاتمہ کر دیں گےتصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Euler

گزشتہ برس تیرہ نومبر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے تین دن بعد ہی صدر فرانسوا اولانڈ نے ایک ایسا منصوبہ پیش کر دیا تھا، جس کے تحت دوہری شہریت کے حامل ایسے فرانسیسی شہریوں کی شہریت منسوخ کرنے کی تجویز دی گئی تھی، جن پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات ثابت ہو جائیں۔

پیرس حملوں میں130 افراد مارے گئے تھے، جس پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا تھا۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پیرس حکومت نے جہاں متعدد اقدامات کیے، وہیں دہشت گردوں کو ملک بدر کرنے کا موضوع بھی متنازعہ ہو گیا۔

فرانس میں کرائے گئے حالیہ جائزوں کے مطابق ملک کی اسّی تا نوّے فیصد آبادی صدر اولانڈ کے اس منصوبے کی حمایت کر ر ہی ہے۔ فرانس کے موجودہ قوانین کے تحت صرف ایسے شہریوں کی شہریت منسوخ کی جا سکتی ہے، جو فرانس میں پیدا تو نہیں ہوئے تاہم انہوں نے مخصوص شرائط پوری کرتے ہوئے شہریت حاصل کی ہو۔ اس قانون کے تحت ایسے شہریوں کی شہریت منسوخ نہیں کی جا سکتی جو فرانس ہی میں پیدا ہوئے ہوں۔

صدر اولانڈ کی طرف سے تجویز کردہ نئے منصوبے کے تحت اس قانون کا اطلاق دوہری شہریت رکھنے والے تمام شہریوں پر ہو سکے گا۔ تاہم اس سلسلے میں ایسے افراد کی شہریت منسوخ نہیں کی جا سکے گی، جن کے پاس صرف فرانس ہی کی شہریت ہے۔ فرانسیسی حکام نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ پیرس حملوں کے مشتبہ حملہ آوروں میں سے کتنے دوہری شہریت رکھتے ہیں۔

اس مجوزہ منصوبے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر اسے قانونی شکل دی جاتی ہے تو فرانسیسی معاشرے میں دو طبقات پیدا ہو جائیں گے۔ یعنی ایک طبقے کی شہریت منسوخ ہو سکے گی اور دوسرے کی نہیں۔ بائیں بازو کے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ یہ تقسیم ملکی آئین کے منافی ہے، اس لیے ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔

دوسری طرف صدر اولانڈ کو اپنے اس منصوبے کے حوالے سے ملک کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی نیشنل فرنٹ کا دعویٰ ہے کہ دراصل یہ مجوزہ منصوبہ اسی کے نظریات کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔ اس پارٹی کے نائب صدر فلوریاں فلیپو نے ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’دہشت گرد فرانس کی شہریت کے حق دار نہیں ہیں کیونکہ فرانس کا شہری ہونا باعث عزت ہے۔‘‘

فرانس کے قدامت پسند سیاسی حلقوں کی طرف سے بھی اولانڈ کے اس منصوبے کے لیے حمایت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سابق صدر نکولا سارکوزی نے تو یہ بھی کہا ہے کہ پیرس حکومت کو مزید سکیورٹی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Deutschland Neujahr Party Brandenburger Tor
پیرس حملوں کے بعد فرانس پر خوف کے سائے ابھی تک برقرار ہیںتصویر: Getty Images/A. Berry

فرانسیسی آئین میں تبدیلی کے اس منصوبے پر فروری میں پارلیمانی بحث کا آغاز کیا جائے گا۔ اس تبدیلی کے لیے پارلیمان میں ساٹھ فیصد ممبران کی رضا مندی ضروری ہو گی۔

دائیں بازو کے سیاستدانوں کے علاوہ فرانس میں انسانی حقوق کے کارکنان بھی اس مجوزہ تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون سے دراصل صرف مسلمان آبادی کو نشانہ بنایا جائے گا۔ فرانس میں مراکشی، الجزائری اور تیونسی نژاد مقامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید