1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’فرانس سے برطانيہ پہنچنے والے مہاجرين کو حراست ميں رکھا گيا‘

عاصم سليم8 مارچ 2016

ايک تازہ رپورٹ ميں انکشاف کيا گيا ہے کہ گزشتہ سال موسم سرما کے دوران فرانس سے کسی نہ کسی طرح برطانيہ پہنچنے والے يوميہ چاليس غير قانونی تارکين وطن کو حراست ميں لے ليا گيا تھا۔ رپورٹ ميں حکام کے اس عمل پر تنقيد کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1I9JI
تصویر: Getty Images/AFP/P. Huguen

’ايچ ايم انسپکٹوريٹ آف پرزنز‘ (HMIP) کی منگل آٹھ مارچ کے روز جاری ہونے والی رپورٹ ميں ان اعداد و شمار کو شامل کيا گيا ہے، جو عموماً عام نہيں کيے جاتے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جولائی، اگست اور ستمبر کے مہينوں ميں مجموعی طور پر 3,603 مہاجرين کو حراست ميں ليا گيا تھا۔ يہ وہ وقت تھا جب غير قانونی تارکين وطن کی جانب سے فرانس سے انگلش چينل پار کر کے برطانيہ جانے کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا۔

رپورٹ کے مطابق مہاجرين سمندر کے حصے کو پار کرنے کے ليے ’يورو ٹنل‘ اور  فيريز کا استعمال کيا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ مہاجرين نے ان گاڑيوں ميں چھپ کر برطانيہ فرار ہونے کی کوشش کی، جو کشتی کے ذريعے ايک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچائی جاتی ہيں۔

اکثريتی پناہ گزينوں کو ڈوور سی پورٹ سے حراست ميں ليا گيا تھا جبکہ بقيہ کو فولکسٹون سے گرفتار کيا گيا تھا۔ چيف انسپکٹر پيٹر کلارک نے کہا، ’’اس ميں کوئی شک نہيں کہ مہاجرت ميں اضافہ اس وقت کی سہوليات و عملے کے بس سے باہر کی بات تھی اور ہنگامی رد عمل درکار تھا۔‘‘ ان کے بقول يہ بات ناقابل قبول ہے کہ زير حراست افراد کے خلاف قانونی کارروائی کے ليے مناسب بندوبست نہ تھا۔

’ايچ ايم انسپکٹوريٹ آف پرزنز‘ (HMIP) کی رپورٹ ميں البتہ اس بارے ميں کوئی ذکر نہيں ہے کہ کتنے مہاجرين کو واپس بھيج ديا گيا اور کتنوں نے سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرائيں۔

برطانوی اميگريشن منسٹر جيمز بروکنشائر نے يہ بات تسليم کی ہے کہ ايسی کسی تنصيب کا استعمال ناقابل قبول تھا اور انہوں نے زور ديا کہ مستقبل ميں ايسا کوئی عمل دہرايا نہيں جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’’جائزے کے بعد ہم نے ڈوور سی پورٹ پر سہوليات کے معيار کو کافی بہتر بنا ديا ہے اور کينٹ کی بندرگاہوں پر نئے آنے والوں کے ليے ايک نيا سنٹر بنانے کے سلسلے ميں کام جاری ہے۔‘‘