1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرخندہ کے قاتلوں کی سزا میں کمی پر ہیومن رائٹس واچ کی تنقید

افسر اعوان10 مارچ 2016

افغانستان کی عدالت عظمیٰ کی طرف سے کابل میں ایک خاتون فرخندہ ملک زادہ کو کھلے عام تشدد کر کے ہلاک کرنے والے مجرمان کی سزا میں کمی کے فیصلے کو ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IAKh
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossaini

عدالت کی طرف سے فرخندہ کے قتل میں ملوث 13 افراد کی سزاؤں میں کمی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے آج جمعرات 10 مارچ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کا عدالتی نظام اس حوالے سے بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ بیان کے مطابق یہ ایک ’تلخ حقیقت‘ ہے کہ افغان سپریم کورٹ نے سزاؤں میں کمی کے فیصلے کی توثیق آٹھ مارچ کو کی، جو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

فرخندہ کے قاتل سزائے موت سے بچ نکلے

افغان خاتون فرخندہ پر الزام جھوٹا تھا، چار افراد کو سزائے موت

گزشتہ برس 19 مارچ کو افغان دارالحکومت کابل میں ایک ہجوم نے 27 سالہ فرخندہ کو ایک خانقاہ کے باہر سرعام تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ یہ تشدد ایک شخص کی جانب سے یہ الزام لگانے کے بعد شروع ہوا تھا کہ فرخندہ نے مبینہ طور پر قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کر دیا تھا۔ تاہم بعد میں یہ الزام غلط ثابت ہوا تھا۔

اس وحشیانہ قتل پر پورا ملک سکتے میں آ گیا تھا اور طویل عرصے سے ’بدعنوانی اور ناقص اہلیت کے شکار‘ ملکی نظام انصاف میں اصلاحات کے مطالبات سامنے آئے تھے۔ اس کے علاوہ تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کے لیے زیادہ اقدامات پر بھی زور دیا جانے لگا تھا۔

ابتدائی طور پر فرخندہ کے قتل کے جرم میں چار افراد کو سزائے موت جبکہ نو دیگر ملزمان کو طویل مدت کی سزائے قید سنائی گئی تھی۔ تاہم بعد میں ایک عدالت نے ان تمام افراد کی سزاؤں میں کمی کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے رواں ہفتے سزاؤں میں کمی کے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔

افغان سپریم کورٹ نے رواں ہفتے سزاؤں میں کمی کے اس فیصلے کو برقرار رکھا
افغان سپریم کورٹ نے رواں ہفتے سزاؤں میں کمی کے اس فیصلے کو برقرار رکھاتصویر: AP

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سزائے موت پانے والے تین افراد کی سزا کو 20 برس سزائے قید میں جبکہ چوتھے کی سزائے موت کو 10 برس سزائے قید میں بدل دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس جرم میں شریک بقیہ نو مجرموں کی سزاؤں میں بھی کمی کر دی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر 30 افراد کے خلاف فرخندہ کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

موبائل فونوں سے ریکارڈ کی گئی فوٹیج میں فرخندہ پر بری طرح تشدد کرتے اور اسے کنکریٹ کے ایک بلاک سے کچلنے اور گاڑی چڑھا کر مارنے کے بعد اس کے جسم کو آگ لگا کر دریائے کابل میں پھینکتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

اس واقعے کے بعد خواتین کے تحفظ کے حوالے سے وسیع پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ افغانستان میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے فرخندہ کی یاد میں دریائے کابل کے کنارے اس جگہ پر ایک یادگار بھی بنائی ہے، جہاں سے اسے آگ لگانے کے بعد دریا میں پھینکا گیا تھا۔

نیویارک میں قائم ادارے ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فرخندہ کے لیے انصاف نہیں کیا گیا: ’’اس کیس کی ابتدا ہی سے افغان نظام انصاف مناسب تفتیش اور ذمہ داروں کو پکڑ کر انہیں سزا دینے میں ناکام رہا ہے۔‘‘