1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی صدر کا حکم نامہ آزادیوں پر قدغن کا باعث

عاطف بلوچ، روئٹرز
11 اگست 2017

فلسطینی صدر کی طرف سے سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس کے کنٹرول کی خاطر جاری کردہ ایک حکم نامے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس سے مغربی کنارے کے علاقے میں آزادی رائے پر قدغنوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2i455
Palestinian Präsident Mahmoud Abbas
تصویر: picture alliance/dpa/abaca/I. Rimawi

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے گزشتہ ماہ ہی ایک حکم نامہ جاری کیا تھا، جس کے تحت مبہم انداز میں سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس کے بارے میں سخت قواعد و ضوابط متعارف کرا دیے گئے تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ ویسٹ بینک کے مقبوضہ علاقوں میں سوشل میڈیا اور یہی نیوز ویب سائٹس بحث و مباحثے کا ایک اہم پلیٹ فارم قرار دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے مطابق بغیر کسی عوامی بحث کے جاری کردہ اس صدارتی حکم نامے کے باعث کسی بھی فرد کو ’سماجی یا قومی اتحاد‘ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں دھرا جا سکتا ہے۔

خون میں لت پت فلسطینی لڑکے کی ویڈیو: آن لائن تصویری جنگ میں شدت

اسرائیلی خاتون فوجی کی متنازعہ تصاویر پر ہنگامہ

فلسطینی اتھارٹی ناکامی کے دہانے پر

غزہ میں بجلی کا بحران، شدید ہوتا ہوا

فلسطینی پراسیکیوٹرز نے البتہ ایسے خدشات کو مسترد کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ نئے الیکٹرانک قوانین کی ضرورت تھی تاکہ ایسے افراد کا احتساب کیا جا سکے، جو سائبر جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔

فلسطینی پراسیکیوٹرز نے کہا کہ ماضی میں کئی ایسی مثالیں ہیں کہ مناسب قانون کی عدم موجودگی کے باعث کئی ہیکرز کو سزائیں نہیں سنائی جا سکی تھیں۔

تاہم گزشتہ ایک ماہ کے دوران فلسطینی اتھارٹی تیس ویب سائٹس کو بلاک کر چکی ہے۔

فلسطینی سینٹر برائے ڈویلپمنٹ اینڈ میڈیا فریڈمز نامی ادارے کے مطابق ان میں سے زیادہ تر ویب سائٹس صدر محمود عباس کے مرکزی سیاسی حریف محمد دحلان کی حامی بھی تھیں۔ اسی طرح کچھ ایسی ویب سائٹس کو بھی بند کر دیا گیا ہے، جو غزہ میں فعال جنگجو گروہ حماس یا سنی انتہا پسند گروہ داعش کے زیر اثر تھیں۔

رواں ہفتے ہی پانچ ایسے صحافیوں کو گرفتار بھی کیا گیا، جو مبینہ طور پر حماس کی نیوز ویب سائٹس سے وابستہ تھے۔ ان پر اس نئے قانون کو توڑنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اسی طرح چار ایسے دیگر صحافیوں سے بھی تفتیش کی جا چکی ہے، جنہوں نے سوشل میڈیا پر فلسطینی اتھارٹی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

فلسطین کے انڈیپنڈنٹ کمیشن فار ہیومن رائٹس کے سربراہ عمار دویک نے اس نئے قانون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ سن انیس سو چورانوے میں فلسطینی خودمختار اتھارٹی کے قیام کے بعد بنائے جانے قوانین میں یہ سے ’بدترین قانون‘ ہے۔ اس قانون کی مبہم زبان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’ویسٹ بینک میں آزادی کے لیے یہ ایک دھچکا ہے‘۔

اس قانون کے تحت سخت سزائیں رکھی گئی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر نیوز ویب سائٹس بند کر دیں۔ اس نئے قانون کے تحت مجرمان کو ایک سال سے لے کر عمر قید تک کی سزائیں سنائی جا سکیں گی۔