1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطین کی صورتحال کے بارے میں عالمی برادری کی رائے جاننا چاہتے ہیں: محمود عباس

6 مئی 2011

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برلن میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ جرمنی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے امن مذاکرات کی بحالی میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/11AkP
محمود عباس اور انگیلا میرکل نے برلن میں ملاقات کیتصویر: dapd

وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسرائیل اور فلسطین دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ جمود کے شکار امن مذاکرات دوبارہ سے شروع کریں۔ میرکل کے مطابق یہ وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کو ممکن بنانے کے لیے فریقین بات چیت کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ میرکل نے یہ بیانات گزشتہ روز جرمن دارالحکومت برلن میں فلسطینی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد دیے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے برلن میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ جرمنی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے جمود کے شکار اسرائیل، فلسطینی مذاکرات کو دوبارہ سے شروع کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ برلن حکومت یہ ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہے اور اس کی پیشکش کرتی ہے۔ تاہم جرمنی اس سلسلے میں کون سے ٹھوس اقدامات کر سکتا ہے، اس بارے میں میرکل نے وضاحت نہیں کی۔ اس موقع پر میرکل نے فلسطینی ریاست کے قیام کے یکطرفہ اعلان کے بارے میں تاہم شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ میرکل نے جرمنی کا موقف دھراتے ہوئے کہا ’ ہم ایک دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں، اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہمارے خیال میں یکطرفہ قدم اس دیرینہ مسئلے کے حل میں کار آمد ثابت نہیں ہو سکتا‘۔

Palestinien Abkommen zwischen Hamas und Fatah Flash-Galerie
بُدھ کو حماس اور فتح کے مابین معاہدہ طے پایا تھاتصویر: Picture-Alliance/dpa

فلسطینی صدر محمود عباس کا جرمنی کا یہ دورہ ایک عرصے سے طے تھا۔ تاہم گزشتہ روز برلن میں اُن کی جرمن چانسلر کے ساتھ ملاقات سے ایک دن قبل، بُدھ کو اسرائیل کی مخالفت کے باوجود متحارب فلسطینی دھڑوں فتح اور حماس نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مصالحتی معاہدے پر باقاعدہ دستخط کر دیے تھے۔ اس کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ایک عبوری قومی حکومت قائم کی جائے گی۔ اس نئی صورتحال میں جرمن چانسلر کی فلسطینی صدر کے ساتھ براہ راست بات چیت میرکل کے لیے بہت آسان نہیں رہی تھی، کیونکہ اسرائیل کا خیال کرتے ہوئے جرمنی اب تک فتح کے ساتھ ہر طرح کے اشتراک عمل سے انکار کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ فتح اور حماس نے امن معاہدے میں اس امر پر بھی اتفاق کیا ہے کہ وہ مشترکہ طور پر اقوام متحدہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے سلسلے میں درخواست پیش کریں گے۔ جرمنی آئندہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے بارے میں، اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بغیر کوئی قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتا۔ تاہم محمود عباس کے جرمنی کے اس دورے کا مقصد اس ضمن میں میرکل کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ محمود عباس کا کہنا ہے ’ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کرنے نہیں جا رہے ہیں، بلکہ ہم عالمی برادری سے اس بارے میں اُس کی رائے پوچھنا چاہتےہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فلسطین کی صورتحال کے بارے میں وہ کیا سوچتی ہے، کیا عالمی برادری اس بات سے متفق ہے کہ دنیا کی ایک قوم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی ریاست سے محروم رہے، فلسطین 67 سالوں سے مقبوضہ ہے، ہم دنیا کی وہ واحد قوم ہیں جو ہنوز دوسری قوم کے قبضے میں ہے‘۔

Gefechte in Gaza Stadt
غزہ سٹی آئے دن مسلح جھڑپوں کی لپیٹ میں رہتا ہےتصویر: AP

اُدھر جرمن چانسلر کے برعکس، فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے اخباری جریدے L'Expess کو انٹرویر دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرستمبر تک امن مذاکرات دوبارہ سے شروع نہ کیے گئے تو فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے سوال کے بارے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے گا۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں