1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلپائن کے صدر کی اوباما کو گالی، ملاقات منسوخ

عدنان اسحاق6 ستمبر 2016

امریکی صدر باراک اوباما نے فلپائن کے اپنے ہم منصب روڈریگو ڈوٹیرٹے کے ایک تلخ بیان کے بعد ان سے اپنی ملاقات منسوخ کر دی ہے۔ دوسری جانب ڈوٹیرٹے نے اوباما کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JwFa
تصویر: Getty Images/AFP/S. Loeb/M. Dejeto

فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹیرٹے نے آج منگل کے روز تسلیم کیا کہ اوباما کے حوالے سے ان کا بیان انتہائی سخت تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے تشویش اور پریشانی پیدا ہوئی ہے: ’’اس بات پر افسوس ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اوباما کو ذاتی طور پر نشانہ بنایا گیا ہو‘‘۔

ان دونوں صدور کی ملاقات آج لاؤس میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونا تھی۔ تاہم پیر کے روز روانگی سے قبل ڈوٹیرٹے نے ایک بیان میں اوباما کو ’’فاحشہ کی اولاد‘‘ کہا۔ تاہم انہوں نے اپنے اس بیان پر معافی نہیں مانگی۔

China G20 Gipfel in Hangzhou - Barack Obama
منشیات کے جنگ کے بھی کچھ بین الاقوامی ضابطے ہیں۔، اوباماتصویر: Getty Images/L. Zhang

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا تھا کہ وہ اس سربراہی اجلاس کے دوران ڈوٹیرٹے کی انسداد منشیات مہم پر ضرور بات کریں گے، جس کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس پر ڈوٹیرٹے نے کہا کہ اوباما کون ہوتے ہیں ان سے سوال پوچھنے والے؟ ’’اگر اس موضوع پر بات کی گئی تو فاحشہ کے بچے میں اجلاس کے دوران ہی تمہارے بخبے ادھیڑ دوں گا ۔‘‘

رپورٹس کے مطابق انسداد منشیات کی اس مہم کے دوران متعدد مبینہ مجرموں کو عدالتی کارروائی کے بغیر قتل کیا گیا ہے۔ تیس جون کو اقتدار میں آنے کے بعد ڈوٹیرٹے درجنوں منشیات فروشوں کو تختہ دار پر بھی لٹکا چکے ہیں، جس پر ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امریکا اور فلپائن حلیف ممالک رہے ہیں تاہم ڈوٹیرٹے کے صدر بننے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

امریکی صدر نے اس بیان کے بعد کہا کہ وہ ڈوٹیرٹے سے ملنے کے بارے میں ایک مرتبہ پھر سوچیں گے، ’’وہ ایک رنگین مزاج انسان ہیں اور میرے ساتھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا یہ ملاقات فائدہ مند بھی ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ اوباما نے مزید کہا کہ انہیں اندازہ ہے کہ منشیات کی تجارت کی وجہ سے فلپائن کی حکومت پر بہت بوجھ ہے، ’’تاہم ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس جنگ کے بھی کچھ بین الاقوامی ضابطے ہیں۔‘‘