1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فن اور فنکار: داد ہی نہیں سرپرستی بھی ضروری ہے

امجد علی10 دسمبر 2008

فنکار کسی بھی معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں، تاہم خود اُن کے پاس سرمایہ زیادہ نہیں ہوتا۔ آمدنی کا کوئی باقاعدہ سلسلہ نہ ہونے کی بناء پر جرمنی جیسے ملک میں بھی اِنہیں اپنی سوشل انشورنس کروانے میں مشکل پیش آتی ہے۔

https://p.dw.com/p/GD60
معروف جرمن مصور کارل شپٹس ویگ کا سن 1839ء میں تخلیق ہونے والا فن پارہ، جس کا عننوان ہے: ’’مفلس شاعر‘‘۔تصویر: picture-alliance/ dpa

معروف جرمن مصور کارل شپٹس ویگ (Karl Spitzweg) کے سن 1839ء میں تخلیق ہونے والے فن پارے کا عنوان ہے: مفلس شاعر۔ اِس تصویر میں ایک شاعر کاغذ قلم تھامے اور خود پر کمبل ڈالے اپنے بستر میں دراز ہے۔ کمرے میں موجود ہر شے سے مفلسی ٹپک رہی ہے۔ اردگرد کتابیں بکھری پڑی ہیں جبکہ چھت کے ساتھ ایک ٹوٹی ہوئی چھتری لٹک رہی ہے۔ اُنیسویں صدی کی اِس تصویر کو بہت حد تک آج اکیس ویں صدی کے شاعروں اور فنکاروں پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ بدلےحالات بھی:

بلاشبہ ایک زمانہ تھا کہ تخلیق کار اپنے فن کے فروغ کے سلسلے میں بادشاہوں اور طبقہء اُمراء کی سرپرستی کے محتاج ہوا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بہت بدلے ہیں، تاہم اب بھی سرکاری مدد ناگزیر ہے۔ وفاقی جمہوریہء جرمنی میں ادب و ثقافت کے شعبوں کی سرکاری سطح پر زبردست پذیرائی کی جاتی ہے اور فن اور فنکار دونوں کے فروغ کے لئے گوناگوں سرگرمیاں اور اقدامات نظر آتے ہیں۔

اِس کے باوجود ایسے فنکاروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے، جن کا فن اُن کے لئے بہت زیادہ آمدنی کا باعث بنتا ہو۔ کم آمدنی والے جرمن تخلیق کاروں کی مدد کے لئے 25 سال پہلے یکم جنوری سن 1983ء کو فنکاروں کی سوشل انشورنس کا قانون نافذ العمل ہوا تھا۔ تب سے فنکاروں کی باقاعدہ ہیلتھ انشورنس کا آغاز ہوا، جس کے اراکین کی تعداد اب بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔

John Lennons Klavier
وفاقی جمہوریہء جرمنی میں ادب و ثقافت کے شعبوں کی سرکاری سطح پر زبردست پذیرائی کی جاتی ہے اور فن اور فنکار دونوں کے فروغ کے لئے گوناگوں سرگرمیاں اور اقدامات نظر آتے ہیں۔تصویر: AP

مختلف تخلیقی شعبوں سے وابستہ تخلیق کار اُس صورت میں اِس ہیلتھ انشورنس کے رکن بن سکتے ہیں اور اِس کے تحت دی گئی سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جب وہ کسی ادارے کے ساتھ وابستہ نہ ہوں اور اپنے فن پاروں سے اُنہیں حاصل ہونے والی آمدنی ایک مخصوص حد سے نیچے رہتی ہو۔ اِس کی رکنیت ملنا آسان نہیں ہے لیکن رکنیت ملنے کے بعد یہ تخلیق کار ماہانہ بہت کم رقم ادا کرتے ہوئے ہیلتھ انشورنس کی تمام تر سہولتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

فن خوبصورت مگر ﺃمدنی کم:

جرمنی میں کسی ادارے کے ساتھ وابستگی کے بغیر تخلیق کے شعبے سے جڑے فنکاروں کی سالانہ اوسط آمدنی میں گذشتہ سال کچھ بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور اب یہ آمدنی گیارہ ہزار یورو سالانہ سے زیادہ ہو گئی ہے۔ تاہم یہ آمدنی اتنی کم ہے کہ اِس میں اِن تخلیق کاروں کا گذارا بہت مشکل ہے۔

ایسے ہی فنکاروں کو یہاں قائم بے شمار ادارے ماہانہ وظائف بھی دیتے ہیں۔ ان جرمن اداروں میں فریڈرش ایبرٹ اور کونراڈ آڈیناؤعر جیسی گیارہ بڑی فاؤنڈیشنز بھی شامل ہیں، جو اوسطاً آٹھ سو یورو فی کس تک وظیفہ بھی دیتی ہیں۔ جرمنی میں سرکاری اور نجی سطح پر ادب و ثقافت کی ترویج و ترقی کے لئے بھاری فنڈز مختص کئے جاتے ہیں۔

جرمنی میں فنکاروں کو دئے جانے والے وظائف کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اُس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ان انعامات کے لئے درخواستیں دینے والوں کی عمروں کی حد تیس تا چالیس سال مقرر کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن سے فیض یاب ہونے والوں میں بڑی تعداد تخلیقی شعبوں میں زیرِ تعلیم طلبہ کی ہوتی ہے۔

جرمنی میں فنون کی ترویج و ترقی میں وہ 250 سے زیادہ فنی انجمنیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، جن کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ہے۔

عظیم فن کار بھی مفلسی کا شکار:

جہاں مغربی دُنیا میں ایسے فنکاروں کو سرکاری اور نجی سطح پر بہت سی مراعات حاصل ہیں، وہاں پاکستان جیسے ملکوں میں تخلیقی شعبوں سے جڑے افراد کا مصیبت کے وقت کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ مہدی حسن، جو پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے چوٹی کے غزل گائیک مانے جاتے ہیں، فالج کا شکار ہونے کے بعد گذشتہ نو برسوں سے بسترِ علالت پر ہیں۔ کراچی میں اُن کے بیٹے عارف مہدی نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ موجودہ حکومت کی جانب سے پچاس ہزار روپے ماہانہ وظیفہ ملنا شروع ہو گیا ہے لیکن مہدی حسن کے علاج کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ یہ وظیفہ بہت ناکافی ہے۔

80 سالہ مہدی حسن فالج کی وجہ سے زیادہ گفتگو بھی نہیں کر پاتے اور اُن کا زیادہ وقت بستر پر ہی گذرتا ہے۔ عارف مہدی کے مطابق اُنہیں فزیو تھیراپی کی ضرورت ہے اور اِسی سلسلے میں وہ اپنے والد کو اکثر بھارت لے جاتے رہتے ہیں۔ عارف مہدی نے بتایا کہ بھارت میں متعلقہ معالجوں کے ساتھ وقت طے ہو چکا ہے اور وہ بہت جلد ایک بار پھر اپنے والد کو وہاں لے کر جائیں گے۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ اپنے والد کو علاج معالجے کے لئے امریکہ لے کر جانا چاہتے ہیں لیکن وسائل اِس بات کی اجازت نہیں دیتے۔

ایک سوال کے جواب میں عارف مہدی کا کہنا تھا کہ ویسے تو دُنیا میں اُن کے والد کے فن کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے لیکن اُن کی بیماری کے بعد کبھی کسی نے اُن کے علاج معالجے میں مدد دینے کے حوالے سے رابطہ قائم نہیں کیا۔

مہدی حسن کے بھانجے مصطفےٰ میر خود بھی گلوکار ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ مہدی حسن کی دو بیویاں ہیں اورایک بڑے خاندان کا کفیل ہونے کے ناتے اُن کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو مہدی حسن کے لئے کم از کم دو لاکھ روپے ماہانہ کا وظیفہ مقرر کرنا چاہئے۔

لباس اچھا مگر حال بُرے:

کراچی ہی میں مقیم مصطفےٰ میر کے مطابق فنکار بظاہر اچھا لباس پہنتا ہے اور گھر سے بن ٹھن کر نکلتا ہے۔ تاہم اگر لوگ اُس کی ظاہری بود و باش سے یہ سمجھیں کہ اُس کی آمدنی بھی زیادہ ہے تو یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اپنی گائیکی سے اُنہیں اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے گھر کا خرچ چلا سکیں۔ اپنی بیٹی کی شادی کے لئے اُنہیں قرض لینا پڑا تھا اور وہ ٹیوشنیں پڑھاتے ہیں، تب جا کر کہیں گھر کے اخراجات پورے کر پاتے ہیں۔

بلاشبہ مالی مسائل نے پاکستان میں عام آدمی کی طرح فنکار کا جینا بھی دو بھر کر رکھا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اِن حالات میں حکامِ بالا کے ساتھ ساتھ خاص طور پر مخیر حضرات آگے آئیں گے اور ادب و ثقافت کے شعبوں کو اپنے خونِ جگر سے سینچنے والے فنکاروں کو ہر طرح سے سہارا اور امدد فراہم کریں گے۔

معروف شاعر جون ایلیاء نے کہا تھا

بول کر داد کے فقط دو بول

خون تھکوا لو شعبدہ گر سے