1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فوج میرے مکمل کنٹرول میں نہیں ہے، بشارلاسد

7 دسمبر 2011

شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ ملکی فوج پوری طرح ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ ان کے بقول کریک ڈاؤں کی پالیسی اختیار کرنے اور غلط اقدام اٹھانے میں فرق ہے۔

https://p.dw.com/p/13NzH
شام کے صدر بشار الاسدتصویر: AP

ایک امریکی ٹیلی وژن کو انٹریو دیتے ہوئے بشارالاسد نے کہا کہ وہ ملک کے صدر تو ہیں لیکن شام ان کی میراث نہیں ہے، اسی وجہ سے یہ ان کی فوج نہیں ہے۔ بشارالاسد نے مخالفین کے کریک ڈاؤن کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا۔

انہوں نےکہا کہ کریک ڈاؤن کی پالیسی اختیار کرنے اور کچھ سرکاری اہلکاروں کی جانب سے غلط اقدام اٹھانے میں فرق ہے۔ انٹرویو کے دوران اسد نے بار بار ملک میں گزشتہ نو ماہ سے جاری بد امنی کے حوالے سے اپنے مؤقف کا دفاع کیا۔ شام میں مارچ میں حکومت مخالف تحریک شروع ہونے کے بعد سے اے بی سی کے ساتھ بشارالاسد کا یہ پہلا انٹرویو تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کی جانب سے شام کے صدر پر تنقید کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسے کئی مواقع آئے تھے، جب بشارالاسد ملک میں جاری پرتشدد کارروائیوں کو روک سکتے تھے۔ ٹونر کے بقول اسد کا یہ دعوٰی بڑا مضحکہ خیز ہے کہ وہ اپنے ہی ملک میں اختیار نہیں رکھتے اور ایسا محسوس ہو رہا کہ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تمام واقعات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسد خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آہنی طاقت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے وہ گزشتہ چار دہائیوں سے شام پر حکومت کر رہا ہے۔ بشارالاسد کے بھائی لیفٹیننٹ کرنل ماھر الاسد بری فوج کے چوتھی ڈویژن کے سربراہ ہیں۔ یہ ڈویژن دارالحکومت کی نگہباں ہے اور ریپبلکن گارڈ بھی انہی کے کنٹرول میں آتے ہیں۔

Syrien Damaskus Pro-Assad Demonstration
شام میں اسد نواز ریلیاں بھی نکالی جا رہی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

شامی صدر سے باربرا والٹرز نے انٹریو کیا۔ ان کا شمار ہائی پروفائل شخصیات کے انٹرویو کرنے والے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ اے بی سی چینل پر’دی ویو‘ نامی شو بھی کرتی ہیں۔

اسی دوران شام کے لیے فرانسیسی سفیر نے دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنھبال لی ہیں۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے مطابق ایرک شاولیر کو نومبر کے وسط میں پیرس واپس بلا لیا گیا تھا اور اب ان کی واپسی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شامی حکومت کے حوالے سے فرانس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آ گئی ہے۔ نومبر میں صدر بشارالاسد کے حامیوں کی جانب سے اعزازی سفیر پر حملے کے بعد پیرس حکام نے انہیں واپس لیا تھا۔ وزارت خارجہ کے مطابق ایرک شاولیر کی خدمات شام کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ فرانس اب اور بھی زیادہ شامی عوام کے ساتھ ہو گیا ہے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں