1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فیکٹری کی چھت گرنے سے 16 افراد ہلاک، سو سے زائد ملبے تلے

تنویر شہزاد، لاہور4 نومبر 2015

لاہور کے نواحی علاقے رائےونڈ کے قریب سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں ایک چار منزلہ فیکٹری کی چھت گرنے سے فیکٹری کے مالک سمیت سولہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ حکام نے مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H0F6
Pakistan Lahore Gebäudeeinsturz
تصویر: DW/T. Shahzad

مقامی حکام کے مطابق اب تک ملبے تلے دبے پینسٹھ افراد کو نکال کر مختلف ہسپتالوں میں پہنچا دیا گیا ہے جبکہ ابھی بھی ایک سو سے زائد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اس حادثے میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

لاہور کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر محمد عثمان نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ حادثہ بہت بڑا ہے کیونکہ حادثے کے وقت پولی تھین بیگ بنانے والی اس فیکٹری میں 150 سے زائد افراد موجود تھے۔

ضلعی انتظامیہ کی طرف سے امدادی کارروائیوں کے لیے فوج کو بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ فوج کی انجینئرنگ کور کے جوان، ریسکیو ٹیمیں، پولیس اور امدادی اداروں کے اہلکار ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ملبے تلے دبے افراد میں بچے بھی شامل ہیں۔

Pakistan Lahore Gebäudeeinsturz
تصویر: DW/T. Shahzad

لاہور کے تمام ہسپتالوں میں اس وقت ہائی الرٹ ہے جبکہ جناح ہسپتال میں چھٹی کرکے جانے والے ڈاکٹروں کو بھی واپس ہسپتال طلب کر لیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے لاہور ڈویژن کے تمام علاقوں سے امدادی کارکنوں کو فوراﹰ جائے حادثہ پر پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔

چھت گرنے سے چار منزلہ عمارت مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہے جبکہ پاکستان کے صدر، وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی طرف سے اس واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

پنجاب حکومت کے ترجمان زعیم قادری نے کہا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے زخمیوں کو ہر ممکن طبیّ امداد دینے اور امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ پاک فوج کا اربن سرچ اور ریسکیو کا خصوصی دستہ بھی خصوصی جہاز سے راولپنڈی سے لاہور پہنچ چکا ہے۔ پاک فوج کی انجینئیرنگ کور کے جوان بھی امدادی سرگرمیوں میں شریک ہیں۔

اس وقت جائے حادثہ پر قیامت کا سا سماں ہے جبکہ ملبے تلے دبے ہوئے افراد کے عزیز و اقارب بھی وہاں پہنچ چکے ہیں۔ اندھیرے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آ رہی تھی، ہنگامی طور پر جنریٹروں کا بندوبست کیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسےواقعات مختلف حکومتی اداروں کی غفلت اور نا اہلی کا نتیجہ ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق فیکٹری کی چھت پر غیر قانونی تعمیرات جاری تھیں۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے اور جائے حادثہ پر موجود ایک نوجوان شہباز منج نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ اس فیکٹری کا نام راجپوت پولی تھین بیگ فیکٹری تھا جبکہ اس میں درجنوں مزدور بھی رہائش پذیر تھے۔ فیکٹری کی تعمیر بھی ناقص تھی اور اسے حالیہ زلزلے سے بھی نقصان پہنچا تھا۔ خستہ حال فیکٹری پر مزید تعمیر بھی جاری تھی۔‘‘

ان کے مطابق فیکٹری میں موجود مشینوں کی وجہ سے بھی عمارت میں ارتعاش سی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ ان کے بقول اس فیکٹری میں کام کرنے والے زیادہ تر مزدور مقامی نہیں تھے، ’’بہت سے مزدور فیکٹری مالک کی غفلت اور لالچ کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‘‘

اس وقت جائے حادثہ پر ضلعی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کے ذمہ داران بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ریسکیو آپریشن کئی گھنٹے تک جاری رہے گا۔