1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قانا کے واقعے پر اخبارات کے تبصرے

31 جولائی 2006

جرمن اور یورپی اخبارات نے اپنی آج پیر کی اشاعت میں لبنانی گاﺅں قانا پر اسرائیلی بمباری میں ہونے والی ہلاکتوں پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اِس واقعے پر اسرائیل کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی رکھنے والے اخبارات نے بھی اِس یہودی ریاست پر اپنی اب تک کی حکمتِ عملی کو بدلنے کے لئے زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYKa
تصویر: picture-alliance/dpa

بہت سے دیگر یورپی اخبارات کی طرح برطانوی جریدے The Independent نے بھی اِس نکتے پر زور دیاکہ قانا کا گاﺅں مسیحی یورپ کے دلوں پرنقش ہے کیونکہ یہیں حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا پہلا معجزہ دکھایا تھا اور پانی کو انگوری شراب میں تبدیل کر دیا تھا۔ اخبار لکھتا ہے، افسوس کہ اِسی قانا کو اب ایک بالکل ہی مختلف وجہ سے شہرت مل رہی ہے۔ وہاں جو کچھ ہوا، اُسے اُن سب انتہائی بُرے اوراحمقانہ اقدامات کی ایک علامت کہاجاسکتا ہے، جو امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی سے حزب اللہ کےخلاف جنگ میں کئے جا رہے ہیں۔

فرانسیسی اخبارLiberation نے لکھاکہ 50 سے زیادہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد، جن میں سے زیادہ تر بچے تھے، بین الاقوامی برادری کا رواداری اور برداشت کا وہ رویہ، جو وہ اب تک اسرائیل کی جانب اختیار کئے ہوئے تھی، ختم ہوچکا ہے۔ دیگر فرانسیسی اخبارات نے لکھاکہ قانا کا واقعہ اِس تنازعے کا ایک موڑ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اسرائیل نے 48 گھنٹے کےلئے بمباری کا سلسلہ روک دینے کافیصلہ کیا ہے اور باقاعدہ فائربندی کےلئے سفارتی دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔

ہالینڈ کے اخبار De Volkskrant نے بھی ایسی ہی اُمید ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل کو اِس مرحلے پر سنجیدگی سے اور ناقدانہ نظروں سے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ اور اُمید کی جانی چاہیے کہ تین ہفتوں کی جنگ کے بعد قانا کا واقعہ ایک موڑ ثابت ہو گا اور یہاں ہونے والی ہلاکتیں آخری ہوں گی۔

یہاں جرمنی میں کئی ایسے اخبارات نے بھی، جو روایتی طور پر اسرائیل کے حامی ہیں، قانا کے واقعے کے بعد اسرائیل کے لئے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، جیسے کہ سب سے زیادہ تعداد میں شائع ہونے والے اخبار Bild نے، جس کا کہنا تھا کہ قانا میں ہونے والی خونریزی ناقابلِ فہم اور شرم ناک ہے۔ اخبار کےمطابق دہشت گرد یہی کچھ تو چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ رو رو کر اندھے ہو جائیں جبکہ وہ خود ایک بھی آنسو نہیں بہاتے۔

جرمن اخبار Neues Deutschland کے مطابق پوری دُنیا اِس وقت حیرت اور بے بسی کی تصویربنی ہوئی ہے۔ اخبار کے مطابق اسرائیل لبنان میں کلسٹربم اورفاسفورس بم تو استعمال کرچکا ہے جبکہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اب یورینیم کے حامل ایسے بم بھی امریکہ سے اسرائیل پہنچنے والے ہیں، جو چھتیں توڑ کر زیرِ زمین پناہ گاہوں تک بھی پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گویا ہر قیمت پر حزب اللہ کو تباہ کرنا مقصد ہے لیکن اسرائیل تقریباً تین ہفتوں کی لڑائی کے بعد بھی اس منزل سے ابھی بہت دور ہے۔

روسی اقتصادی اخبار Kommersant کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اِن ہلاکتوں کی بہت بھاری سیاسی اور سفارتی قیمت چکانا پڑے گی۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگر ہلاک ہونے والوں میں آٹومیٹک رائفلوں اور راکٹ لانچرز سے مسلح مردوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد دَس گنا زیادہ ہو تو کوئی کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے۔

اسلامی دُنیا میں اسرائیل کے چند ایک دوست ممالک میں شمار ہونےوالے ملک ترکی کے اخبار Yeni Safak نے اپنے پہلے صفحے پر ایک مرد کی تصویر شائع کی، جو قانا میں ایک بچی کی لاش کو اُٹھائے ہوئے ہے، ساتھ شہ سُرخی تھی: دہشت گرد اسرائیل۔ جبکہ مقبول ترک اخبار ڈیلی Milliyet نے پوچھا کہ اِس بے رحمی کو کون روکے گا۔ اور آزاد خیال اخبارRadijkal نے پوچھا کہ اِس طرح کی کارروائی کو بھلا کیسے اپنے دفاع کےلئے کی جانے والی کارروائی کہا جا سکتا ہے۔

مصری اخبارات نے قانا میں مرنے والے بچوں کی تصاویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ قصائی آریل شارون کو ایہود اولمرٹ کی صورت میں ایک صحیح جانشین مل گیا ہے۔ مصر کے اپوزیشن اخبارات نے الزام لگایا کہ 12 جولائی کو اِس اسرائیلی حملے کے آغاز کے بعد سے اب تک عرب حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔